صحافت مجرموں کے نرغے میں

844

روزنامہ کاوش اور کے ٹی این کے نمائندے برائے سکھر، معروف صحافی جان محمد مہر گھر لوٹ رہے تھے کچے کے مسلح افراد جو ان کی گھات میں بیٹھے تھے نے ان پر قاتلانہ حملہ کردیا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے۔ انہیں اسپتال لے جایا جارہا تھا کہ راستے میں ہی وہ جاں بحق ہوگئے۔ مرحوم کو ان کے آبائی گائوں چک سر میں سپرد خاک کیا گیا ان کی نماز جنازہ میں صحافیوں، سماجی رہنمائوں، سیاسی ذمے داروں اور علاقے کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ معروف صحافی کی ہلاکت پر ذرائع ابلاغ میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ عزیز میمن کے قتل پر بھی صحافی سراپا احتجاج ہوئے اور پورے سندھ کے قلم کار اور سماجی ورکر میدان میں نکل کھڑے ہوئے مگر قاتل پکڑے نہ گئے صرف رسم قل رہی اور اس قتل کے سیاسی مقاصد حاصل کرلیے گئے۔ حاصل کرنے والوں نے جان محمد مہر کا تعلق چونکہ سندھی زبان کے سب سے بڑے اخبار اور چینل سے تھا سو بڑوں کو بھی سوچنا پڑ گیا۔ رسماً ایک تعزیتی بیان کے ساتھ ایک کروڑ روپے پسماندگان کو دینے کا اعلان بھی کرنا پڑا۔ یوں کہ سندھی کہاوت ہے خالی دعا بدعا کے برابر ہوتی ہے۔
یہ قتل کیوں ہوا۔ کچھ حلقے کہتے ہیں کہ برادری کے افراد کا زمین پر تنازع تھا، معاملہ اس کا بھی نہ تھا مگر یہ بااثر ایک رکاوٹ تھا جس کو دور کیے بغیر دوسرا فریق زمین نہیں جیت سکتا تھا سو اس کو ہلاک کرنا ضروری جانا اور کر گزرے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس کی صحافت جرأت مندانہ اور بالخصوص ڈاکوئوں کے حوالے سے غوث علی کے دور میں سکھر جیل ٹوٹنے، سرنگ لگا کر ڈاکوئوں کا فرار اور وین پولیس کو راہ میں روک کر ڈاکوئوں کو چھڑا کر بھگانے کی ڈاکوئوں کی زبانی رپورٹنگ اور پھر کچے کے علاقے میں جا کر ڈاکوئوں سے ملاقات، انٹرویوز نے پولیس کے ایک حلقہ کو پریشان کردیا تھا۔ یوں ہی جگاڑی صحافی جو محض خانہ پری کی صحافت کرکے شکم پری کا سامان کرتے ہیں ان کو حسد میں بھی مبتلا کردیا کہ ہم پھرتے ہیں خوار کوئی ہمیں پوچھتا نہیں‘ نے بھی کے ماحول اور فضا کو جان محمد مہر کے مخالف بنانے میں اپنا حصہ ڈالا اور مقتدر حلقوں میں دبے دبے لہجے میں یہ سنا جانے لگا کہ یہ سمجھتا کیا ہے ہمارے 11 معلوم 3 نامعلوم کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔
جان محمد مہر کا قتل پی پی پی حکومت کے آخری ایام میں ہوا۔ اب نگراں حکومت کے گلے پڑ گیا۔ سندھ جرنلسٹس اینڈ میڈیا پریکٹیشنرز کمیشن کا ایک ہنگامی اجلاس چیئرمین جسٹس (ر) اے رشید رضوی کی صدارت میں ہوا۔ چیئرمین SGAK جسٹس رشید اے رضوی نے واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے رپورٹ کمیشن کو پیش کرے۔ حکومت نے جان محمد مہر کے قتل کی تحقیقات کے لیے 7 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی ہے جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، ایف آئی اے، رینجرز اور پولیس افسر شامل ہیں ایک ماہ میں یہ رپورٹ تیار کرکے حکومت کو پیش کرے گی۔ سکھر، شکارپور اور روہڑی سے 15 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ سندھ جو وڈیروں کی جکڑ بندی کا صدیوں سے شکار چلا آرہا ہے اب میڈیا کی بدولت شعور پکڑ رہا ہے، سو ان ظالموں نے اس قلم کے دھنی کو جو ان کے قابو میں نہ آئے قتل کرکے راہ سے ہٹانا شروع کردیا ہے۔ منیر سانگی، اجے کمار، اجمل سائوند، عزیز میمن اور جان محمد مہر اس کی زندہ مثال ہیں۔
شرمناک بات یہ ہے کہ ایس پی سکھر سنگھار ملک نے جان محمد مہر کی ہلاکت کے فوراً بعد بلاتحقیق یہ بیان داغ دیا کہ یہ قتل ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے اور زخمی صحافی کو سول اسپتال سکھر لے جایا گیا تو ڈاکٹر سمیت پورا طبی عملہ غیر حاضر تھا۔ صحافت میں ایک پہلو بلاشک و شبہ جرأت رندانہ ہے مگر دوسرا پہلو بھی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پہلو یہ ہے کہ جب سے صحافت نے نظریہ کو چھوڑ کر کمرشل کا روپ دھار لیا ہے، کاروبار سمجھ کر صحافت میں آنے والوں کی تعداد میں قابل الذکر اضافہ ہوا ہے یہاں تک تو خیر تھی مگر صحافت کی قوت کو دیکھ کر وہ عناصر بھی اپنی دولت کی بدولت صحافی بن گئے جنہوں نے اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے قلم کے ہتھیار کو سب سے موثر جانا اور صحافی برادری کو پناہ گاہ سمجھ کر پریس کلبوں، صحافی تنظیموں میں پناہ گزین ہوگئے۔ اب سوشل میڈیا کے دور نے تو طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا ہے۔ موبائل فون سے وہی کام لیا جارہا ہے جو جرائم پیشہ افراد کلاشنکوف سے لے رہے ہیں۔ یہ گروہ صحافت کے نام پر خوب دہاڑی کما رہے ہیں اور نعرہ زن ہیں کہ ’’پگڑی سنبھال جٹا‘‘ پیسہ نکال جٹا۔ اور عزت کو بچانے کی خاطر ان رہزنوں کو وہ بھتا دینے پر مجبور ہیں، قاتل تک میڈیا میں گھس بیٹھے ہیں۔ حال میں قتل ہونے والے ایک نام نہاد صحافی کے متعلق قاتلوں نے بتایا کہ اس نے میرے والد کو قتل کیا تھا اور بچائو کی خاطر صحافت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ صحافی بن کر ہر وہ کام یہ طبقہ کررہا ہے جس کی قانون کسی صورت اجازت نہیں دیتا۔
اب تو ہر محکمہ کی رشوت میں، جرگوں کے فیصلے میں، منشیات کی فروخت میں، بے نظیر انکم سپورٹ میں، ہوٹلوں کی چائے پانی میں، غرض جہاں سے لوٹا جاسکتا ہے یہ لوٹ رہے ہیں۔ خبر لگانے کے پیسے، خبر روکنے کے پیسے، بقول سندھی زبان مرنا بھی کھائیں ہرنا بھی کھائیں اور معتبر کہلائیں۔ پلاٹ فروخت کرنے ہوں یا سرکاری پلاٹ پر قبضہ کرنا ہو۔ اس کا آسان نسخہ صحافت ہے اس کا تمغہ سجائو اور دھمکائو۔ اور ایک ہی افسر کو بلیک میل کرکے کئی کئی پلاٹ فروخت کرکے ضمیر کو حلال کی رزق کی تھپکی دے ڈالو۔ اور کروڑ پتی بن جائو۔ یہ معمول ہوتا جارہا ہے، ایک افسر نے ایک صحافی کے قتل کے بعد ایک ملاقات میں بتایا کہ اس کے اکائونٹ میں اتنے کروڑ روپے نکلے، صحافت کو کمرشل کے بعد ہتھیار بنا کر آنے والے کرمنل افراد کی روک تھام کا بندوبست کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہ دھندہ ان لوگوں نے گندہ کردیا ہے۔ اس کا تقدس پامال ہوگیا ہے، صحافت کو ان لوگوں نے بے توقیر کردیا ہے، قلم کی حرمت اور میڈیا کی اخلاقی قوت پامال ہوگئی۔ جرائم پیشہ صحافی قتل ہوتے ہیں تو صحافت کا نام ان کی موت کے بعد بھی کام آتا ہے۔ صحافت پاکیزہ ہوگی تو موت شہادت ہوگی۔ حکومت بے مہار میڈیا کو لگام دے اور ہر ایرے غیرے، نتھو خیرے اور لٹیرے جو گھس بیٹھے ہیں اس سے اس کو پاک کرنا ہوگا۔ اگر پتا چلے کہ صحافی مجرم ہے یا ہوگیا ہے تو اس کو کڑی سزا، تقدس قلم کے پامالی کی دے کر عبرت کدہ بنادیا جائے۔ ایک تذکرہ بھی ضروری ہے کہ میڈیا کے مالکان نمائندہ بنا کر معاوضہ دینے کے بجائے کارڈ دے کر کہتے ہیں کمائو کھائو ہمیں بھی کھلائو۔ اور پھر اس میں مارے جائو تو پھر ان کے پاس کفن تک کا خرچہ دینے اور اخبار میں شرکت کی فرصت نہیں۔ ماسوائے ایک آدھ میڈیا مظلوم ہے یوں کہ وہ یرغمال ہے حکمرانوں کے ہاتھو، کرمنل عناصر کے ہاتھوں، سرمایہ داروں کے ہاتھوں، بدمعاشوں کے ہاتھوں۔