اس عنوان سے تین حصے پہلے شائع ہوچکے ہیں، اب اس کے تسلسل میں مزید سبق آموز احادیث وروایات چند اقساط میں لکھی جارہی ہیں:
’’اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ جب رسول اللہؐ سے کوئی ایسی بات سنتیں جسے سمجھ نہ پاتیں تو اس کا مطلب سمجھنے کے لیے آپؐ سے رجوع کرتیں، چنانچہ جب نبیؐ نے فرمایا: ’’(قیامت کے دن) جس کا حساب کتاب ہوا، اُسے عذاب دیا جائے گا‘‘، اس پر سیدہ عائشہؓ نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: ’’جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، عنقریب اس کا حساب آسان کردیا جائے گا اور وہ خوشی خوشی اپنے اہل کی طرف لوٹے گا‘‘، (الانشقاق: 8-9) رسول اللہؐ نے سیدہ عائشہ کے ذہن میں پیدا ہونے والے اس اشکال کے بارے میں فرمایا: ’’یہ تواُس کے لیے ہے جسے محض پیشی پر چھٹکارا مل جائے، لیکن جس کے حساب کی پوری جانچ پڑتال کی گئی، وہ یقینا ہلاک ہو جائے گا‘‘، (بخاری) مسلم میں یہ الفاظ ہیں: ’’اور جس کے حساب کی پوری جانچ پڑتال کی گئی تو وہ عذاب سے دوچار ہوگا‘‘، آج کل کی مروّجہ اصطلاح میں مالی معاملات میں اسی کو ’’منی ٹریل‘‘ کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے الحاقّۃ: 19تا24 میں اسی مفہوم کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان فرمایاہے: ’’پس جس کا نامۂ اعمال اُس کے دائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا، وہ کہے گا: لو میرا اعمال نامہ پڑھو، مجھے یقین تھا کہ (ایک دن) مجھے اپنے حساب سے دوچار ہونا ہے، پس وہ بہشتِ بریں میں پسندیدہ زندگی میں ہوگا، جس کے میوے (پھلوں کے بار سے) جھک رہے ہوں گے، (اُن سے کہا جائے گا:) اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم نے گزشتہ زندگی میں کیے، خوب مزے سے کھائو اور پیو‘‘۔
’’ابوبَرزہ اسلمی بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں (اپنی جگہ سے) نہیں ہٹیں گے تاوقتیکہ اُس سے اِن سوالوں کے جواب نہ پوچھ لیے جائیں: یہ کہ اس نے اپنی زندگی کن کاموں میں بسر کی اور اس نے اپنے علم کے تقاضوں پرکس قدر عمل کیا، نیز یہ کہ اس نے مال کہاں سے اور کیسے کمایا اور کن مصارف پر صرف کیا اور اس نے اپنی جسمانی صلاحیتوں کو کن مشاغل میں استعمال کیا‘‘۔ (ترمذی) پس یہ تین سوال بڑے اہم ہیں: (۱) کہاں سے کمایا، (۲) کیسے کمایا (۳) اور کن مصارف پر خرچ کیا، دنیا میں بھی ان سوالوں کا جواب دینا آسان نہیں ہوتا، انسان آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہی کے تصور ہی سے لرز جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔
رسول اللہؐ نے ذخیرہ اندوزی کی ممانعت فرمائی ہے، اس ممانعت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے ذخیرہ اندوز کو لعنتی کہا ہے، احادیثِ مبارکہ میں ہے:
’’سیدنا عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: تاجر نعمتِ رزق سے نوازے جاتے ہیں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والالعنتی ہے‘‘، (ابن ماجہ) (۲)’’سیدنا ابو معمر بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: ذخیرہ اندوزی صرف خطا کار ہی کرتا ہے‘‘، (ابودائود) (۳)’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس نے مسلمانوں کے لیے (کسی چیز کی قیمت میں غیر معمولی) اضافے کی نیت سے ذخیرہ اندوزی کی تو وہ خطا کار ہے‘‘، (مسند احمد) (۴)لوگوں کی ضرورت کے باوجود چالیس دن تک ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے بارے میں فرمایا: ’’جس نے (بازار میں طلب کے باوجود) چالیس دن تک اشیائے خوراک کا ذخیرہ کیا اور جس خاندان میں کسی شخص نے بھوک کی حالت میں (رات گزار کر) صبح کی تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ اُس سے اٹھ جاتا ہے‘‘۔ (مسند احمد) واضح رہے: براء ت کے معنی اظہارِ لاتعلقی کے ہیں اور اللہ کے ذمہ اٹھنے کے معنی ہیں: نجات کی بابت وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے محروم ہوگیا۔
عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: (مبالغہ آمیزی پر مبنی فرضی) قصے سنانے والا اللہ تعالیٰ کے غضب کا منتظر ہوتا ہے، (پوری توجہ سے قرآن) سننے والا اللہ کی رحمت کا منتظر ہوتا ہے، تاجر رزقِ (حلال) کا منتظر ہوتا ہے، ذخیرہ اندوز اللہ کی لعنت کا منتظر ہوتا ہے اور نوحہ کرنے والیوں اور ان کی ہمنشیں عورتوں پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) واضح رہے: جن صحابۂ کرام کا نام عبداللہ ہے، اُن کو یکجا ذکر کیا جائے تو عربی زبان میں’’ عِبادِلَہ‘‘ کہا جاتا ہے، جیساکہ مذکورہ بالا حدیث کے راویوں میں چار صحابۂ کرام کے نام میں عبداللہ‘‘ آتا ہے۔
علامہ علا الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں:
’’اور (احادیث میں مذکور) اس قسم کے وعیدیں حرام کے ارتکاب پر ہی لاحق ہوتی ہیں اور اس لیے بھی کہ احتکار (ذخیرہ اندوزی) ظلم کے باب سے ہے، کیونکہ شہر میں جو سامان فروخت ہوتا ہے، اس کے ساتھ عوام کا حق متعلق ہوتا ہے، پس جب عوام کی شدید ضرورت کے وقت کوئی شخص خریدار کو وہ چیز بیچنے سے انکار کردے تو (درحقیقت) اس نے حق داروں سے ان کا حق روک لیا اور حق دار سے حق کا روکنا ظلم ہے، خواہ روکنے کی مدت قلیل ہو یا زیادہ، ہر صورت میں ظلم ثابت ہوگیا‘‘۔ (بدائع الصنائع)
اَلْمَوْسُوْعَۃُ الْفِقْہِیَّۃُ الْکُوَیْتِیّۃ میں ہے:
’’فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے: احتکار کے حرام ہونے کی حکمت عوام الناس کو ضَرر سے بچانا ہے اور اسی لیے علماء کا اس پر اجماع ہے: اگر کسی شخص نے لوگوں کی شدید ضرورت کے باوجود کسی چیز کی ذخیرہ اندوزی کی، جبکہ لوگوں کو مارکیٹ میں وہ چیز دستیاب نہیں ہے تو اُس شخص کو ذخیرہ کی ہوئی چیز کو بیچنے پر مجبور کیا جائے گا تاکہ لوگوں سے ضَرر کو دور کیا جائے (یعنی لوگوں کو ضروریاتِ زندگی دستیاب ہوں)‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے: جب کوئی مافیا منصوبہ بندی کے ساتھ اشیائے ضرورت کی مصنوعی قلت پیدا کرے تو حکومت کو مداخلت کر کے بازار کو معمول کے مطابق رکھنا چاہیے، یہ نہ ہو کہ عوام کو استحصالی عناصر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے۔ نوٹ: زینت وزیبائش اور عیش وعشرت کی اشیاء پر ذخیرہ اندوزی کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے بغیر انسان گزارا کرسکتا ہے اور جو لوگ ان آسائشوں کے دلدادہ ہوتے ہیں، اُن کے پاس اس کے وسائل بھی ہوتے ہیں۔
کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرنا اور لوگوں کو ضرر میں مبتلا کرنا بالاتفاق حرام ہے، علامہ ابن حجر الہیتمی لکھتے ہیں:
’’یہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ احادیث میں ایسے لوگوں پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے بیزار ہے، نیزاحادیثِ مبارکہ میں ذخیرہ اندوز کے کوڑھ اور افلاس میں مبتلا ہونے کی شدید وعیدیں بھی آئی ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی گناہ کبیرہ ہے‘‘۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر)
ذخیرہ اندوزی کی مختلف صورتیں ہیں:
کوئی شخص اپنی زمین کا غلّہ روکے رکھے اور فروخت نہ کرے، جبکہ وہ اُس کی ضرورت سے زائد ہو، یہ جائز ہے، کیونکہ اگر اشیائے ضرورت کا ذخیرہ کرنا مطلقاً معیوب ہو، تو معمول کا کاروبار بھی چل نہیں سکتا۔ چنانچہ جب کسی غذائی جنس کی پیداوار کھیت اور کھلیان میں تیار ہوجاتی ہے تو کاشت کار اور زمیندار بھی اپنی سال بھر کی ضروریات کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں اور کاروباری حضرات بھی خریداری کرتے ہیں تاکہ اُسے مارکیٹ میں فروخت کرکے نفع حاصل کریں، یہ کاروبار کا فطری طریقہ ہے۔ لیکن اگر تاجر ضرورت کے باوجود اپنا مال عوام الناس کو فروخت نہ کرے تاکہ قیمتیں مزید بڑھیں تو یہ گناہ ہے، کیونکہ جب لوگ تنگی میں مبتلا ہوجائیں تو اُس کو اپنی ضرورت سے زائد غلّے کو فروخت کرنا چاہیے، اگر ایسا نہ کرے تو اسے اس پر مجبور کیا جائے گا۔
کوئی شخص غلّہ، چینی، دالیں اور دیگر غذائی اجناس خرید کر ذخیرہ کرکے روک لیتا ہے، پھر مارکیٹ میں اُس جنس کی طلب بڑھتی چلی جاتی ہے اور طلب کے مقابلے میں رسد کم ہونے کی وجہ سے اجناس اور اشیائے ضرورت کی انتہائی قلّت ہوجاتی ہے، پھر مارکیٹ پر ایسے ذخیرہ اندوزوں کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں قیمتوں میں غیر فطری طریقے سے غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ جب لوگ قحط اور قلّت کا شکار ہوجائیں تو اُن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مال بازار میں لاکر منہ مانگے داموں فروخت کرے اور زیادہ منافع کمائے، یہ صورت حرام ہے۔ رسول اللہؐ نے ایسے شخص کو ملعون قرار دیا ہے، ایسے ہی استحصالی طبقات کوآج کل ’’مافیا‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ قلّت مصنوعی ہوتی ہے اور اس میں ذخیرہ اندوز لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر غیر معمولی نفع حاصل کرتے ہیں۔
بازار میں کسی جنس کی فراوانی ہے اور لوگوں کو کسی طرح کی تنگی اور قلت کا سامنا نہیں اور نرخ بڑھانے کی غرض سے اس جنس کو اسٹاک نہیں کیا جاتا، ایسی حالت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے، لیکن اگر کوئی گرانی کے انتظار میں غلے کو روکے رکھتا ہے، یہ عمل کراہت سے خالی نہیں۔ شریعت نے لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں: ہمارا مال ہے ہم جس طرح چاہیں خریدیں اور جس طرح چاہیں فروخت کردیں، ان کو اس حدیث سے عبرت حاصل کرنا چاہیے:
’’فروخ کہتے ہیں: اپنے دورِ خلافت میں ایک دن سیدنا عمر فاروق مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلے تو راستے میں اُنہیں جگہ جگہ غلّہ نظر آیا، اُنہوں نے پوچھا: یہ غلّہ کیسا ہے، لوگوں نے بتایا: یہ درآمد کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: اللہ اِس میں برکت دے اور اُس شخص کو بھی جس نے اِسے درآمد کیا ہے، لوگوں نے کہا: امیر المومنین! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے، آپ نے پوچھا: کس نے ذخیرہ کر کے رکھا تھا، لوگوں نے بتایا: امیرالمومنین! آپ کے آزاد کردہ فلاں غلام اور سیدنا عثمان کے آزادہ کردہ غلام فروخ نے ذخیرہ کیا ہے، سیدنا عمر فاروق نے اُن دونوں کو بلوا بھیجا اور فرمایا: تم نے مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی، اُنہوں نے عرض کیا: امیر المومنین! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں، آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تنگ دستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے، فروخ نے یہ سن کر اُسی وقت کہا: امیرالمومنین! میں اللہ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن سیدنا عمر کا آزاد کردہ غلام اپنی بات پر اَڑا رہا، ابو یحییٰ کہتے ہیں: بعد میں جب میں نے سیدنا عمر کے غلام کو دیکھا تو وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا‘‘۔ (مسند احمد) (جاری ہے)