قتل مقاتلے کے واقعات میں اضافہ

846

پچھلے کچھ عرصے سے ہم اخبارات میں دیکھ رہے ہیں کہ قتل مقاتلے سے متعلق خبروں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا جب ہماری نظروں سے قتل مقاتلے کی خبریں نہیں گزرتی ہوں گی۔ ان واقعات کے اسباب سے قطع نظر ان واقعات کا ایک اور تشویشناک پہلو خونی رشتوں کا ان واقعات میں ملوث ہونا ہے۔ پختون معاشرے میں جائداد اور مال و اسباب کی خاطر چچا، چچازاد، ماموں، ماموں زاداور بعض واقعات میں ناجائز تعلقات کے شبہے اور الزامات میں بہنوں، بیویوں اور بھابیوں کے قتل کے واقعات توسامنے آتے رہتے ہیں لیکن بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل، ناخلف اولاد کے ہاتھوں باپ حتیٰ کہ ماں جیسی ہستی کا قتل، باپ کے ہاتھوں لخت جگر کی ہلاکت جیسے دلخراش واقعات آج کل جس تواتر سے وقوع پزیر ہورہے ہیں وہ ان خونی رشتوں کے تقدس کی پامالی کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی اجتماعی بے حسی کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اخبارات کے صفحہ اول پر معروف قانون دان اور سیاسی وقبائلی راہنما عبدالطیف آفریدی ایڈوکیٹ مرحوم اور سینئر جج آفتاب آفریدی کے خاندانوں کے درمیان کئی سال سے چلی آنے والی خون ریز دشمنی دوستی میں بدلنے والی چار اور پانچ کالمی خبر پر ان دونوں خاندانوں کے علاوہ ان کے ہزاروں بہی خواہوں اور خاص کر عدلیہ اور سیاسی وسماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد حتیٰ کہ ہر پڑھے لکھے اور باشعور فرد نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ہوگا۔ معاشرے میں قتل مقاتلے کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے ان میں زیادہ تر ان پڑھ، جاہل، نشئی، عادی مجرم اور یا پھر مختلف سماجی اور نفسیاتی عوامل کو ان واقعات کے وقوع پزیر ہونے کی وجہ سمجھا جاتا ہے لیکن جب انسان مندرجہ بالا دو انتہائی پڑھے لکھے، قانون سے نہ صرف واقف بلکہ اپنی پوری زندگیاں قانونی موشگافیاں سلجھانے میں بسر کرنے والے دو خاندانوں کی خونیں دشمنی اور اس میں دونوں جانب ہونے والے قیمتی جانی نقصانات کو دیکھتا ہے تو اس کی سمجھ میں سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں آتا ہے۔

ہمارے گائوں میں جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے تب سے قتل مقاتلے کے بیسیوں واقعات ہوئے ہوں گے جن میں ہر جنس اور عمر کے افراد قاتل کا نشانہ بنے ہوں گے جن میں سے اکثر واقعات کا خاتمہ صلح صفائی اور معافی تلافی پر ہوتا آیا ہے ان بیسیوں واقعات میں آج تک شاید ہی کوئی قانون کی گرفت میں آیا ہوگا اگر کسی وجہ یا بدقسمتی سے کوئی قانون کی پکڑ میں آیا بھی ہے تو ان قاتلوں میں سے شاید ہی کوئی پھانسی کے پھندے پر جھولا ہوگا یا شاید ہی کسی کو عمر قید کی سزا ہوئی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے، قتل مقاتلے کے درجنوں واقعات کے باوجود کسی کو پھانسی یا عمر قید کی سزا کیوں نہیں ہوتی اس کی بنیادی وجہ تو معاشرے سے قانون کی حکمرانی کے تصور اور قانون کی تعمیل کے خوف اور ڈر کا مفقود ہونا ہے یہی وہ عامل ہے جو ہمارے خوبصورت اور پر امن معاشرے میں نہ صرف زہر گھول رہا ہے بلکہ انتقام در انتقام کی آگ کی وجہ سے پورے معاشرے کو جہنم بھی بنا رہا ہے۔

اگر آج بھی قانون معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط بنانے میں کامیاب ہو جائے تو مجال ہے کہ کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لے سکے، اس حوالے سے یورپ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک کی مثالوں سے قطع نظر اگر تیسری دنیا کے ممالک مثلاً چین، سعودی عرب، ملائشیا، ایران اور حتیٰ کہ موجودہ افغانستان کی مثال ہی لے لی جائے تو بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ان معاشروں میں قتل وغارت کے واقعات کیوں محدود ہیں، اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے قانون کی حکمرانی اور ملزموں کا فی الفور ٹرائل اور ان کو کیفرکردار تک پہنچایا جانا وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ معاشرے کثیر آبادی اور مختلف سماجی اور معاشی اکائیوں میں بٹے ہونے کے باوجود قتل وغارت کے واقعات سے پاک اور محفوظ ہیں۔

ہمارے ہاں قتل مقاتلے کے دیگر اسباب میں خاندانی دشمنیاں، جہالت، معاشی افراط وتفریط، قبائلی اور نیم قبائلی روایات، ذہنی تنائو، جائداد کے تنازعات، دین سے بے خبری، بے پناہ غربت اور بعض واقعات میں فاقہ مستی اور اپنی بدمعاشی کا سکہ جمانا بھی قابل ذکر وجوہات ہیں۔ اسی طرح معاشرے میں ہر طرح کی منشیات کی بہتات، کرائم کلچرکا فروغ، ناقص عدالتی نظام، قانون کی کمزور گرفت اور پولیس کا فرسودہ اور ناکارہ سسٹم بھی معاشرے میں بدامنی اور قتل مقاتلے کے واقعات میں مسلسل اضافے کے باعث بن رہے ہیں۔

یہاں ایک سوال یہ ہے کہ آخر ان واقعات اور ہمارے پر امن اور بھائی چارے کے حامل معاشرے سے بدامنی اور قتل مقاتلے کے واقعات کا سدباب کیوں کر ممکن ہے اور وہ ایسے کون سے اقدامات ہو سکتے ہیں جو ان مجرمانہ سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اولین اور بھاری ذمے داری پولیس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ معاشرے میں امن وامان کو برقرار رکھنے کا سب سے مستند اور منظم ادارہ یہی ہے، اس کے بعد عدلیہ بھی اس سلسلے میں اپنے فرائض سے بری الزمہ نہیں ہوسکتی ہے جب کہ ان دونوں اداروں کے لیے قانون سازی کرنے والے قانون ساز ادارے بھی اہمیت کے حامل ہیں، اسی طرح بحیثیت مجموعی معاشرہ اور اس کے اہم ادارے مساجد، خاندان، جرگے اور گھر کی اہمیت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے۔ پولیس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اس کے ہاں قانون شکن عناصر کی تو سرپرستی ہوتی ہے البتہ شریف لوگ تھانے جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں اس تاثر کے خاتمے کے لیے پولیس کو قانون شکن عناصر کے لیے زیرو ٹالیرنس پالیسی پر کاربند ہونا ہوگا۔ اس ضمن میں جرائم کے اسباب اور سدباب کے لیے پولیس کی سطح پر جدید سائنسی خطوط پر تفتیش کے ساتھ ساتھ جدید تحقیق کے ذرائع بھی کافی حد تک ممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔