کراچی کے مسائل کے مکمل تعارف کیلئے تو سیکڑوں صفحات بھی کم پڑیں گے لیکن قارئین کی آسانی کیلئے ایک ایک علاقے کا تعارف کردیئے ہیں۔سب سے پہلے تو گلستان جوہر کو سامنے رکھتے ہیں کہ روز یہاں سے نکل کر کام پر جانا ہوتا ہے ، اور مشکل یہ ہے کہ واپس بھی آنا پڑتا ہے کیونکہ جسارت کے ایک ڈرائیور بابو بھائی تھے وہ کہتے تھے کہ” آنگے نہیں تو جانگے کیسے ” سو ہمارا بھی معاملہ یہی ہے اس لئیے روز جانے کے لئے واپس آنا بھی پڑتا ہے۔ جوہر چورنگی سے نکلیں ! مگر نکلیں کیسے ؟ گھر کے سامنے عظیم الشان اور غیر ضروری انڈر پاس بن رہا ہے ، جبکہ اوور ہیڈ برج کے بعد اس انڈر پاس کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن انڈر دی ٹیبل اس کی ضرورت منوالی گئی ہوگی ۔ پھر بھی اب تو یہ بن رہا ہے گھر سے نکلنا محال ہے لیکن نکلنا تو بہرحال ہے۔ نکلے تو سامنے یوفوربیا پارک کا خوبصورت منظر اب پہاڑی علاقے کا منظر پیش کرتا ہے،پارک کے آدھے حصے میں تو پانی کی لائن اور دیگر تنصیبات گزارنے کیلئے مٹی کے تودے ایسے کھڑے ہیں جیسے حضرت موسی کیلئے دریا میں سے بنائے گئے تھے ، بہرحال فرعون کب غرق ہوگا اس کا انتظار سب کو ہے، بائیں جانب مڑ نہیںسکتے کیونکہ جوہر چورنگی تو ہے نہیں جوہر موڑ کی طرف جانا بھی ممکن نہیں سو متبادل راستے سے جاتے ہیں لیکن وہ تو کوئی بنایا ہی نہیں گیا ، جو ٹوٹے پھوٹے راستے یا پگڈنڈیاں تھیں ٹریفک ان ہی پر ڈال دیا گیا، جیسے اخبارات میں کہا جاتا ہے کہ چھپ کر ٹھیک ہو جائے گا اسی طرح ہمارے حکمرانوں نے سوچا ٹریفک چل کر ٹھیک ہوجائے گا، راستہ تو کیا ٹھیک ہوتا عوام خود ہی ٹھیک ہوگئے ، یا یوں کہ لیں عادی ہوگئے ، سو ہم دایئں جانب مڑ کر یونیورسٹی روڈ کی طرف چلے جاتے ہیں وہاں تک پہنچنے کیلئے جابجا پائپوں اور گڑھوں سے بچنا پڑتا ہے ، پھر یونیورسٹی روڈ تک پہنچتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دریا پار کرگئے، بلکہ دریا تو اب شروع ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں منصوبے زیر تکمیل ہیں یعنی انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج کا زیرتکمیل ہی افتتاح ہوگیا ہے ہر افتتاح کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ یہ بھی پیپلز پارٹی کا کارنامہ ہے اس کو بھی کارنامہ قرار دیا گیا مارچ سے لوگوں کی زندگی عذاب ہے کوئی متبادل راستہ نہیں بنایا گیا اس جگہ دو تین اموات بھی ہوچکی ہیں لیکن کوئی قیامت نہیں آئی۔ میڈیا جس کو چاہے ہاتھوں ہاتھ لے لے۔ اس انڈر پاس پر ایک ارب روپے خرچ ہورہے ہیں۔ اس کے یو فوربیا پارک سے متصل رہائشی فلیٹ میں سوا سال سے پانی نہیں۔ فلیٹ کے سامنے گٹر بہہ رہے ہیں۔ سڑک کا وجود نہیں لوگوں کا فلیٹوں سے نکلنا محال ہے۔ کسی کسی کا تو دوسرا دروازہ عقبی جانب ہے لیکن جس کو دروازہ میسر نہیں وہ کیا کرے۔ علاقہ تین اداروں کے جھگڑے میں بسا رہتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ فیصل، کے ایم سی اور واٹر بورڈ، سڑک بنانے کی بات کرو تو زیڈ ایم سی والوں کے ٹرانزیشن افسران کے پاس اختیارات نہیں۔ منتخب نمائندوں کو چارج نہیں دیا جارہا اور واٹر بورڈ والے سنا ہے عالمی بینک کے نمائندے ہیں اس لیے بڑے بڑے پروجیکٹ بنانے میں سوا سال میں سامنے کے فلیٹوں کو پانی نہیں دے سکے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اگر جوہر چورنگی کا جائزہ لیں تو یہ علاقہ عملاً چار حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ بلاک 15 والے سامنے کے بلاک میں نہیں جاسکتے انہیں طویل چکر کاٹ کر پیرا شاپنگ کی طرف جانا پڑتا ہے وہیں بڑے میڈیکل اسٹورز اور دکانیں ہیں۔ دوسری طرف ارم شاپنگ سینٹر سے اس کی طرف بھی براہ راست جانا بہت مشکل سے آسانی سے محفوظ راستہ منور چورنگی سے ہوکر جاتا ہے اور ارم شاپنگ والے سامنے چیز کی طرف اس لیے نہیں جاسکتے کہ وہاں بھی انڈر پاس بن رہا ہے۔
یہ بات سمجھنے کی کوشش تو کسی نے نہیں کی بلکہ سب اس کے منتظر ہیں کہ یہ مکمل کب ہوگا۔ اس کی تکمیل سے انہیں یہ آسانی ہوجائے گی کہ آنے جانے کا راستہ مل جائے گا۔ پورا گلستان جوہر ایک جوہڑ بنا ہوا ہے۔ گھروں میں پانی نہیں ہے اس کے لیے ہر آدمی بلاول کے برابر ہے کیونکہ موصوف نے کہا تھا کہ میں بھی ٹینکر کا پانی منگواتا ہوں اور پورے جوہر پر ٹینکر اور ٹینکی والوں کا راج ہے۔