نگراں دور حکمرانی آسان کھیل نہیں

768

ملک کے آٹھویں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 14 اگست بروز پیر کو ایوان صدر میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ اس تقریب میں سابق وزیراعظم شہباز شریف، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف، صوبائی گورنرز، وزرائے اعلیٰ (سابق) چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس تقریب حلف برداری میں سابق صدر آصف علی زرداری، پی پی پی کے بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) کے سابق لیگی وزرا نے شرکت نہ کرکے ایک پیغام ناراضی دیا۔ اختر مینگل بھی نواز شریف کو اس تقرر پر اپنے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کرچکے ہیں۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ مینگل، مگسی قبائل کی کاکڑ قبیلے سے ان بن چلی آرہی ہے۔ یوں بڑی پارٹیوں کے بڑوں کی عدم شرکت بتارہی ہے کہ ان کو گھاس نہیں ڈالی گئی۔ اور یہ عجب اتفاق ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم چودھری انوار الحق اور پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، دونوں اہم ترین عہدوں پر دو ہم نام اور دونوں ان کا انتخاب بتائے جاتے ہیں۔ یہ نگراں وزیراعظم پاکستان کے آٹھویں وزیراعظم ہیں اور علم اعداد کی روشنی میں آٹھ کا عدد تخت یا تختہ کا کہلاتا ہے۔ اور یہ حلف بروز پیر کو اٹھایا گیا جو یوم ولادت رسولؐ کی نسبت سے متبرک ہے۔ تیسری اہم بات حلف کی تقریب 14 اگست یوم آزادی پاکستان کو ہوئی۔ کیا نگراں وزیراعظم فیصلہ کن، متاثر کن کردار ادا کرکے کرپشن، لوٹ کھسوٹ، بدامنی، مہنگائی کے ذمے داروں کو تخت پر براجمان ہو کر تختہ دار تک پہنچا کر مظلوم عوام کی دعائیں لیں گے۔ ان کے تقرر کا دن متبرک ہے اور ان کاموں میں ان شاء اللہ خیر و برکت بھی رہے گی اور مملکت کے عوام یوم آزادی کی نسبت سے ان ظالموں اور لیڈروں سے بھی آزاد قرار پائیں گے۔ سینئر سیاستدان نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے خوب کہا کہ انوار الحق کاکڑ کا اچانک سے نگراں وزیراعظم بننا حیران کن نہیں ان سے مستقبل میں بڑے بڑے کام لیے جائیں گے۔ کیا ایسا ہوسکے گا۔ کیا ایسا ہی ہونے چلا ہے۔ اب سیاست کے بادشاہ گر زرداری اور امامت کے خوگر مولانا فضل الرحمن کی شرکت سے گریز پائی۔ اور پیش گوئی کا مرحلہ تو ظاہر نہیں کررہی ہے جو مرحوم پیر صاحب پگاڑو لانگ بوٹوں کے گرم انقلاب سے بتایا کرتے تھے۔

قوم تھک چکی ہے، حالات کی ستم ظریفی سے پریشان ہے اور بلوچستان اس سے خصوصی طور پر پریشان ہے۔ سو اس مرتبہ پھر اصلاح احوال ضیا الحق شہید کی طرح بلوچستان سے وزیراعظم بنا کر کرنے کی سوچا گیا ہے۔ یوں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بنادیے جو بلوچستان سے سینیٹ اور باپ پارٹی سے تعلق داری کے حامل ہیں۔ یہ پہلے نگراں وزیراعظم ہیں جن کو جانے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے وسیع اختیارات کا آئین میں ترامیم سے حامل بنادیا ہے۔ ان کا نام تبصروں اور تجزیوں میں بھی دور پرے تک سنائی نہیں دے رہا تھا اور پی پی پی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ کے بقول ہماری دور رس نگاہ میں بھی یہ نہ تھا کہ کوئی سینیٹر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ویسے ان صاحب نے تو جو نگراں وزیراعظم کے لیے تجاویز دی تھیں اس میں اس قسم کے تقرر کو رد کیا گیا تھا۔ مگر جو کہتے ہیں کہ جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ نصیبوں کے کھیل میں کوئی بتا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم میں یوں بھان متی کا کنبہ جوڑ کر حکومت بنائی اور عمران خان کی حکومت گرائی جاسکتی ہے اور شہباز شریف کو بلندی پرواز عطا کرکے وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے۔ کچھ تجزیہ نگار تو کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے ایک سال کی وزارت اعلیٰ میں توسیع کی بات ان کے حضور رکھی تھی جس کو گیٹ نمبر 4 کہا جاتا ہے جہاں حکمران ڈھالے جاتے ہیں مگر شنوائی نہ ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے تو آئین کے تحت ایک سال اضافہ کی گنجائش بھی نکال کر دکھائی تھی مگر حدود کی بات قبول نہ ہوئی تو شہباز شریف نے یہ شکوہ کرنا ضروری جانا کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے 30 سالہ تعلق داری ہے اور میں ان کی آنکھ کا تارا ہوں۔ اداروں سے بہتر تعلقات پر فخر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آنکھ کے تارے سے آنکھ موندنے کا شکوہ اس بیان میں پس پردہ رکھا۔

انوار الحق 2013ء میں بلوچستان حکومت کے ترجمان رہے اور انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کے ووٹر بھی تھے۔ پی ٹی آئی، اے این پی نے ان کے تقرر پر اعتراض کیا۔ مگر اس سے ہوتا کیا ہے یہ تو نام وزیراعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجا ریاض کے وہم و گمان میں بھی شاید نہ تھا۔ سو حکم تھا اور تعمیل ہوگئی، اللہ اللہ خیر سلا۔ اب وزیراعظم انوار الحق کاکڑ ہیں پشتون زباں بولتے ہیں کاکڑ قبیلہ کے حوالے سے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ بھی ایک دور میں معروف ہوئے انہوں نے صدر اور وزیراعظم کے درمیان ہونے والے اختلافات میں کڑاکے دار فیصلہ کرتے ہوئے دونوں کو گھر بھجوادیا۔ ان کا یعنی نئے نگراں وزیراعظم کا تعلق چھوٹے صوبے بلوچستان اور چھوٹی پارٹی سے ہے۔ تو کوئی بڑا خطرہ کھانے والوں کو بھی نہیں ہوگا۔ بلوچستان سے وزیراعظم ظفر اللہ جمالی صاحب بنائے گئے اور کام نکال کر گھر بھجوادیے گئے تو انہوں نے بھی چوں چراں نہیں کی اور صوبہ میں بھی کوئی ارتعاش نہ پیدا ہوا۔ ہاں احساس محرومی بے یارومددگار کی فضا ضرور گمبھیر ہوئی۔ اس کی پروا کس کو ہے، یہاں تو ہنگامی فیصلہ ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے تین ماہ میں انتخابات کرانے کی توتے کی طرح گردان کی ہے اور اس پارٹی کے ترجمان نے شکوہ کیا کہ نگراں وزیراعظم کی نامزدگی کے معاملے پر وزیراعظم کی جانب سے کسی بھی سطح پر شریک مشاورت نہیں کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ کٹھ پتلی وزیراعظم اور اپوزیشن کے جعلی قائد کی کاوش و مشاورت ہے۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے نگراں وزیراعظم کی تعیناتی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی آئینی مدت کے اندر صاف شفاف انتخاب چاہتی ہے۔ 2018ء میں نگراں وزیراعظم شفاف انتخاب کرانے میں کامیاب نہ ہوپائے تھے۔ پی پی پی پی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے نام پر پی پی پی کے تحفظات کی خبر غلط ہے۔ پی پی نے نگراں وزیراعظم کا نام تجویز کرنے کا اختیار وزیراعظم شہباز شریف کو دے دیا تھا۔ 2018ء کے عام انتخاب سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے تخلیق کار انوار الحق کاکڑ تھے، آپ کیڈٹ کالج کوہاٹ میں زیر تعلیم رہے، آپ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر ہیں اور ان کا انتخاب ملک کے سیاسی معاشی سرحدی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑی چھان پھٹک کے بعد کیا گیا۔ اقتدار کا بھوکا طبقہ استخارہ کررہا ہے کہ وہ اب کیا کرے اس کی عقل فی الحال کام نہیں کررہی ہے۔ بہرحال دو حرفی بات یہ ہے کہ نگراں دور حکمرانی آسان کھیل نہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے مرحلے میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے سیاسی معاونت پر اہم عہدہ دیے جانے کا وعدہ کیا گیا۔

نگراں وزیراعظم حساس ترین صوبہ بلوچستان سے لانے کے لیے دو نگاہ ناز میں تھے ایک سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور دوسرے سینیٹ کے رکن انوار الحق کاکڑ۔ یوں پھر قرعہ فال انوار الحق کاکڑ کے نام نکلا۔ نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے پر پابندی نہ ہوگی، دور نگرانی جو طویل تر ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا، اگر ان کی کارکردگی قابل اطمینان رہی تو ان کو ملک کا مستقبل وزیراعظم بنائے جانے کا امکان ایک حلقہ ظاہر کررہا ہے۔ اور دو پارٹیوں سے نجات کا فارمولا پالیسی سازوں کے ذہن سے محو نہیں ہوا۔ وراثتی حکمرانی جو بادشاہی کی بدترین صورت ہی ہے اس ملوکیت کے خطرات مقتدر حلقوں کے پیش نظر ہیں۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ نگراں حکومت کا تصور ضیا الحق کی باقیات میں سے ہے۔ آپ نے 2 مارچ 85ء کو ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا جس کو آر سی او 1973ء کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت پہلی مرتبہ پاکستان میں نگراں حکومت کا تصور پیش کیا گیا اس میں لازمی قرار دیا گیا کہ جب قومی یا صوبائی اسمبلیاں ٹوٹ جائیں تو انتخاب تک ایک عارضی نگراں سیٹ اپ کام کرتا رہے یہ نظام 18 ویں اور 20 ویں ترامیم میں اس کے اندر کئی تبدیلیاں ضرور لائی گئیں مگر یہ نظام چلا آرہا ہے۔ اس قانون کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نگراں حکومت کی غیر جانبداری اور طرز عمل کے بارے میں کوئی واضح قوانین موجود نہیں۔