اے ابن آدم ہمارے دوست ملک آج ترقی کے اُفق پر ہے اور اس کی بڑی وجہ محنت، ایمانداری اور محب وطنی بھی شامل ہے۔ چین کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ مچھلی کھانا نہیں بلکہ پکڑنا سیکھو مگر ہم اور ہمارے این جی اوز کیا کررہی ہیں۔ آج سے چند سال پہلے تک غریبوں کو مزارات سے لنگر ملتا تھا پھر ہماری این جی اوز نے عظیم الشان دستر خوان لگانے شروع کردیے، آج شہر میں بے شمار مقامات پر ناشتہ اور کھانا مفت ملتا ہے، عوام کو مفت کھانے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ایک این جی اوز تو یہ کہتی ہے کھائو اور ضرورت ہو تو گھر والوں کے لیے بھی لے جائو۔ اگر یہی حالات رہے تو ہم کبھی غربت کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔ استاد محترم محمد محسن نے مجھے ایک نصیحت بھیجی جو اُن کے اپنے اس کالم میں شامل کررہا ہوں اور غریب بینک بھی اُن کا ایک عظیم فارمولا ہے جس پر 2020ء سے عمل شروع ہوچکا، اس غریب بینک کے نگراں اعلیٰ مجھے بنایا ہے، کہانی کچھ ایسے ہے کہ 1988ء میں جب نویں کلاس میں پڑھتے تھے اُس وقت اسکول یونیفارم میں اونٹ کے رنگ کی شلوار قمیص اور سفید جوتے ہوتے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب یونیفارم کے معاملے میں بہت سکتی سے پیش آتے تھے اس لیے سب روزانہ یونیفارم پہن کر آتے تھے، سوائے دو ایک کے جو غریب تھے۔ ایک دن صبح کی اسمبلی کے دوران میٹرک کے طالب علم بیکھومل بغیر یونیفارم کے اسمبلی کی قطار میں کھڑا تھا جیسے ہی ہیڈ ماسٹر کی نظر اُس پر پڑی بہت غصے میں بیکھومل کو کالر سے پکڑ کر باہر لے کر آئے ہیڈ ماسٹر کو غصے میں دیکھ کر بیکھومل زور زور سے کہنے لگا سائیں میری بات سنیں میرا باپ باسومل غریب آدمی ہے۔ وہ مجھے کہاں سے یونیفارم اور جوتے لے کر دے؟ مجھے آپ نہ ماریں میں کل سے اسکول نہیں آئوں گا۔ ہیڈ ماسٹر غلام حیدر نے اسے چھوڑ دیا اور اسٹیج پر چڑھ کر تمام طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے بعد بیکھومل ایک ایک کلاس میں آئے گا آج آپ کو جو خرچی گھر سے ملی ہے وہ بیکھومل کو دے دینا تا کہ وہ یونیفارم خرید سکے۔ میرے پاس آٹھ آنے جیب خرچ تھا۔ جو مجھے روز ملتا تھا میں نے سوچا آج کے دن سموسہ نہیں کھائوں گا وہ میں بیکھومل کو دے دوں گا۔ ابھی کلاس میں بیٹھے ہی تھے کہ کلاس کے ٹیچر استاد فقیر محمد کلاس میں آگئے، تھوڑی دیر کے بعد بیکھومل بھی استاد سے اجازت لے کر کلاس میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ایک روپے کے چند نوٹ اور کچھ سکے تھے جو شاید اس نے اپنی کلاس سے جمع کیے تھے۔ استاد بہت غصے میں سے ہم سب کو منع کردیا کہ اس کو کوئی ایک روپیہ بھی نہیں دے گا اور بیکھومل کی طرف دیکھ کر کہا ڈوب کیوں نہیں مرتے جو بھیک مانگتے پھرتے ہو کیا غربت کی آڑ میں ساری زندگی بھیک مانگتے پھرو گے؟ واپس اپنی کلاس میں جائو اور جو پیسے لیے ہیں ان کو واپس کرو میں تم کو یونیفارم لے کر دوں گا پھر بیکھومل سے پوچھا اسکول کے بعد تم کیا کام کرسکتے ہو تو اس نے جواب دیا میں موچی کا بیٹا ہو میں بوٹ پالش جوتوں کی مرمت کا کام کرسکتا ہوں مگر میرے پاس سامان خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ استاد نے کہا تم کو کتنے پیسے چاہییں اس نے جواب دیا تھا استاد ڈیڑھ سو روپے اس میں سارا سامان آجائے گا استاد نے جیب سے ڈیڑھ سو روپے نکالے اور بیکھومل کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ قرض ہے تم مجھے ہر ہفتہ 7 روپے واپس کرنا اس کے بعد تین کورے صفحات پر کچھ لکھنے لگے اور تینوں پرچی بیکھومل کو دیتے ہوئے کہا ایک پرچی رشید کو دینا وہ تم کو کپڑا دے گا اور تم ایک روپے روزانہ کے حساب سے اس کا قرض واپس کرنا، دوسری پرچی خالق کو دینا وہ تم کو نئے جوتے دے گا اس کو بھی ایک روپیہ روز کے حساب سے قرضہ واپس کرنا، یہ تیسری پرچی یوسف درزی کو دینا وہ تمہارا یونیفارم سی کر دے گا اس کو بھی ایک روپے روزانہ دینے ہیں۔ 4 روپے قرض اُتارنے کے لیے تمہیں ہر صورت میں اتنا کمانا ہے تاکہ تم یہ قرض چکا سکو اور اس کے بعد تمہیں اپنی محنت سے آگے بڑھنا ہے۔ ایک بار بھیک مانگنے کی عادت پڑ گئی تو ساری زندگی بھیک مانگتے ہی گزرے گی۔ بیکھومل نے وعدہ کیا اور چلا گیا پھر استاد نے پوری کلاس سے کہا آپ لوگ اپنے جوتوں کی مرمت اور پالش بیکھومل سے کروایا کریں۔ وقت تیزی سے گزر گیا 12 سال پلک جھپکتے گزر گئے۔
1999ء میں اسکول کی الوداعی پارٹی ہورہی تھی، شہر کے معززین کو بھی دعوت دی تھی، تقریر کرنے کے لیے شہر کی ایک بڑی فلور مل کے جنرل منیجر بیکھومل کو دعوت دی گئی۔ کاٹن کے سوٹ ماتھے پر ری بین کا چشمہ رکھے اپنی تقریر میں 1988ء کا اپنا قصہ سناتے ہوئے بیکھومل زار و قطار روتے ہوئے اسٹیج پر بیٹھے اپنے استاد فقیر محمد کے پیروں کو چھوتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ایک کامل استاد نے مجھے بھیک مانگنے سے بچایا اور محنت کا سبق دیا۔ آج کل مدد کے نام پر بھیک بانٹی جارہی ہے اس سے معاشرے میں مسلسل بھکاری پیدا کیے جارہے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں فقیر محمد جیسے مرد قلندر استاد درکار ہیں۔ ڈاکٹر امجد اس وقت یہ کام کررہے ہیں ان کے بعد میرے استاد محمد محسن انہوں نے غریب بینک کے نام سے ایک اکائونٹ کھول کر دیا ہے غریبوں کی مدد کا ایک سلسلہ الگ ہے جس میں ملک سے باہر میرے گرین وڈ اسکول کے سینئر طالب علم شامل ہیں جو غریبوں میں راشن کسی کا آپریشن، کسی کی ادویات کے لیے صدقہ و زکوٰۃ مجھے بھیج دیتے ہیں اور نہایت مستحق کو پوری چھان بین کے بعد اُن کی خاموشی سے مدد کردی جاتی ہے۔ غریب بینک اب تک 6 لوگوں کو چھوٹے کاروبار کے لیے قرض دے چکا ہے کسی کو 10 ہزار تو کسی کو 50 ہزار کوئی ہزار روپے مہینہ تو کوئی 500 روپے مہینہ قرض واپس کررہا ہے۔ محمد محسن صاحب نے کہا کہ اگر کسی قرض دار کا انتقال ہوجائے تو باقی کا قرض معاف کردیا جائے گا۔ محسن صاحب نے 2 لاکھ کا قرض کاروبار کے لیے دیا جس کی ریکوری ہر ماہ ابن آدم کرتا ہے۔ پورا Record بنا رکھا ہے۔ محمد محسن اپنی پنشن سے یہ کام کرتے ہیں۔ کاش محمد محسن جیسے کچھ اور درد دل رکھنے والے اس میں شامل ہوجائیں تو ہم بہت جلد ملک کے غریبوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرسکتے ہیں۔ میری اپنی این جی اوز سے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے کہ بکرے اور مرغی کھلانے کے بجائے ضرورت مند لوگوں کو اُن کے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں اور معاشرے سے بھیک کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، مل کر غریب بینک نے فلسفے پر کام کرنے کی کوشش کریں اور قوم کو بھکاری بنانے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں سے جان چھڑوائیں۔ پاکستان زندہ باد۔