سماعت الائونس

591

قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ حکمران طبقے کی طرز حیات اور طرز حکمرانی کی داستان ہوتی ہے، جس قوم کا حکمران طبقہ ملک و قوم کی محبت سے سرشار ہوتا ہے وہ اقوام عالم میں سر بلند اور سرفراز ہوتی ہے قول و فعل کا تضاد انفرادی ہو یا اجتماعی ایسی دیمک ہے جو وجود کو کھوکھلا کر دیتی ہے جسے حالات کے تھپیڑے زمیں بوس کر دیتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ فوری انصاف کی فراہمی کے لیے پر عزم ہے، متبادل ثالثی نظام کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ یہ نظام عدالتوں پر بڑھتے ہوئے مقدمات کا بوجھ کم کرنے میں انتہائی اہم کردار کا حامل ہے، یوں تو چیف جسٹس پاکستان نے اپنے خطاب میں بہت کچھ کہا مگر ان کا یہ بیان انتہائی عجیب و غریب ہے کہ من گھڑت اور جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، یہاں یہ کہنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ جعلی مقدمات کی حوصلہ شکنی کرنا کس کی ذمے داری ہے، قابل غور بات یہ بھی ہے کہ بے بنیاد مقدمات کی حوصلہ شکنی کرنے کا مشورہ کسے دے رہے ہیں، کیونکہ جعلی مقدمات کی سماعت تاخیری حربے اور اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر کا تعلق تو براہ راست عدلیہ سے ہوتا ہے، اگر عدالتیں جعلی مقدمات کے تاخیری حربوں کے معاملے میں وکلا کی حوصلہ افزائی نہ کریں تو انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کیونکہ کسی منصوبے کی تشکیل کے لیے پر عزم ہونا کافی نہیں ہوتا۔ شیخ چلی بھی اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے بہت پر عزم تھا، شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ کامیابی کے لیے پر عزم ہونے سے زیادہ باعمل ضروری ہوتا ہے، بے عملی کسی بھی معاملے کو بے معنی بنا دیتی ہے۔

عزت مآب چیف جسٹس پاکستان کا یہ ارشاد بھی غور طلب ہے کہ عدالتوں پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کے لیے متبادل نظام عدل بہت ضروری ہے، سو، ضرورت اس امر کی ہے کہ متبادل نظام عدل کو بروئے کار لایا جائے تو اس ضمن میں موصوف کا یہ بیان بھی قابل توجہ ہے کہ بے بنیاد اور جعلی مقدمات کی حوصلہ شکنی کی جائے تبھی عدالتیں مقدمات کے انبار سے نجات حاصل کر سکتی ہیں۔ مذکورہ بیان پر توجہ دی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ نظام عدل کے کرتا دھرتا جعلی اور بے بنیاد مقدمات کی سماعت پر پابندی کیوں نہیں لگاتے حالانکہ جعلی مقدمات کی سماعت مدعا علیہ کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ اپیل در اپیل کا ابلیسی چکر مدعا علیہ کو کولہو کا بیل بنا دیتا ہے، گھر سے عدالت اور عدالت سے وکیل کے چیمبر کی حاضری دینا ہی مقدر بنا دی جاتی ہے۔

بہاول پور ہائی کورٹ کے معتوب بابا جی کہتے ہیں کہ ملازمت اور خاص کر سرکاری ملازمت کے لیے چند باتوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، ملازمت کے طلب گار کی سیرت کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کیا جاتا ہے، عادات اور خصائل پر بھی غور کیا جاتا ہے اس کے بعد ملازمت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، مگر وطن عزیز کے اداروں خاص کر عدالتوں میں سیرت پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی، بابا جی پاکستان کے نظام عدل سے بہت مایوس ہیں اور ان کی مایوسی بے وجہ نہیں انہوں نے اپنے ایک عزیز کو رہائش کے لیے مکان دیا تھا جس سے ملحق ایک مکان اور چار دکانیں بھی تھیں کچھ عرصہ تک دکانوں کا کرایا ملتا رہا ملازمت کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر جانا پڑا چند سال بعد واپس آئے اور دکانوں کا کرایا طلب کیا تو کہا گیا کہ اب یہ دکانیں اور مکان ہمارے ہیں، اہل محلہ نے سمجھایا کہ بابا جی نے رہنے کے لیے مکان دیا تھا اور تم اس کا یہ صلہ دے رہے ہو کہ مالک بن بیٹھے، قابض نے محلہ والوں کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا کہ یہ ہمارا گھریلو معاملہ ہے تم لوگ خاموش رہو کہ یہی تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ اہل محلہ کو مرعوب کر کے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا، محکمہ مال رجسٹری آفس سول کورٹ سیشن کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا، پھر جعل ساز نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی دس گیارہ سال بیت گئے ہیں اس طویل اور جاں گسل عرصہ میں بابا جی بلڈ پریشر، شوگر اور بے خوابی جیسے امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں مگر نظام عدل کے کرتا دھرتا لیفٹ اوور کا اذیت ناک کھیل کھیل رہے ہیں اور انصاف کی فوری فراہمی کے لیے پر عزم ہونے والے ٹانگ پر ٹانگ رکھے جلد از جلد انصاف کی فراہمی کے بارے میں سوچ رہے ہیں حالانکہ سامنے کی بات یہ ہے کہ اپیل در اپیل کے شیطانی چکر کو قانون کے دائرے میں لایا جائے، بے بنیاد اور من گھڑت مقدمات کی سماعت پر پابندی لگادی جائے تو انصاف کی فوری فراہمی ممکن ہو سکتی ہے، مگر ایسا نہیں کیا جاتا کیونکہ انصاف کی فوری فراہمی کے لیے مقدمات کی سماعت ضروری ہے البتہ یہ ممکن ہے کہ تنخواہ کے ساتھ سماعت الائونس بھی دیا جائے تو انصاف کی فوری فراہمی ممکن ہے۔