پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں عوام نے جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کی ہے اور بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ملک کو عدم استحکام سے دوچار ہونے سے بچانے کا تقاضا ہوگا کہ نگران وزیر اعظم اور نگران کابینہ ایسی تشکیل دی جائے جو غیر جانبدار اور با اعتماد افراد پر مشتمل ہو اور ہر طرح سے اس میں سب کی بالواسطہ نمائندگی کا تاثر بھی ابھرے اور ایک طرح سے یہ قومی حکومت قرار پائے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں کا بوجھ، گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور سر اٹھاتا ہوا توانائی کا بحران ان چند چیلنجوں میں سے ہیں، جن کا سامنا نگراں حکومت کو کرنا پڑے گا۔ سیاسی موشگافیوں سے دور معیشت دان اس بات پر فکر مند ہیں کہ نگراں حکومت ملک کے معاشی پہیے کو کس طرح چلائے گی، کیونکہ انتخابات ہوں یا کوئی اورکاروبارِ حکومت کوئی چیز بھی پیسے کے بغیر نہیں چلتی، لیکن سیاست دانوں کے خیال میں حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہے، اگر انتخابات شفاف نہ ہوئے، تو ہم اس کا ذمے دار نگراں حکومت کو گردانیں گے لہٰذا نگراں حکومت شفاف انتخابات کو یقینی بنائے تاکہ تمام سیاسی جماعتیں آزادانہ انداز میں ان انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ اتحادی حکومت نے جاتے جاتے الیکشن ایکٹ 2023 منظور کیا ہے، جس کی شق 230 کی ذیلی شق 2اے میں ترمیم شامل ہے جس کے تحت نگراں حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔ ترمیم کے تحت نگران حکومت کو ملکی معیشت کے لیے ضروری فیصلوں کا اختیار ہوگا اور وہ بین الاقوامی اداروں اور غیرملکی معاہدوں کی مجاز ہوگی۔ نئی مردم شماری کے گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد آئین کے آرٹیکل 15(1) کے سب سیکشن 5 کے تحت الیکشن کمیشن از سر نو حلقہ بندیاں کرانے کا قانونی طور پر پابند ہے اور حلقہ بندیوں کا کام 120دن میں ہونا ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور انتخابات میں جس جماعت کو عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کرے گی اس جماعت کو آئندہ حکومت آئینی طریقہ سے منتقل کردی جائے گی اور یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے پرامن اور شفاف انتخابات ہونا ضروری ہیں کیونکہ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے ہیں۔
پاکستان میں مردم شماری ہمیشہ سے ایک انتہائی متنازع امر رہا ہے اور ہر مردم شماری کے نتائج سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں، 2017 کی مردم شماری کے نتائج بھی تنازعات کا شکار ہوگئے تھے جس کے سبب دوبارہ مردم شماری کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے پر رواں برس عمل درآمد ہوا۔ حالیہ مردم شماری کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہے، اس کا مقصد 2017 کی مردم شماری سے جڑے تنازعات کا خاتمہ اور شفاف طریقے سے آبادی کو شمارکرنا تھا جس کے نتائج پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اتفاق ہو۔ دوسری جانب آئینی و قانونی ضرورت اور اس کے تقاضوں سے بھی صرف نظر ممکن نہیں، بنا بریں کوئی ایسا موزوں راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ آئین و دستور کے تقاضے بھی پورے ہوں اور نئی مردم شماری کے حوالے سے تحفظات کا بھی خاتمہ ہو، ایسا ناممکن نہیں لیکن کوئی بھی یکطرفہ امر باعث نزاع بن سکتا ہے جس سے بچنے کے لیے قومی سطح پر اتفاق رائے سے ان معاملات کو طے کرنا ضروری ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ سولہویں قومی اسمبلی کب بنے گی؟ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت کی طرف سے نئی مردم شماری کے نتائج منظور اور جاری کرنے کے بعد انتخابات میں تین سے نو ماہ تک کی تاخیر کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ تین سے چار ماہ تو الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے لیے درکار ہوں گے اور پھر اگر یہ حلقہ بندیاں ٹریبونلز کے بعد اپیلٹ کورٹس میں چیلنج ہوگئیں تو اس پر مزید وقت لگ جائے گا۔ الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کا سیکشن چودہ کہتا ہے کہ الیکشن پلان چار ماہ پہلے دینا ضروری ہے۔ ملک کی سیاسی قوتیں چاہتی ہیں کہ اضافی مدت تین ماہ سے زیادہ نہ ہو، ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ ریاست متحد ہو کے جس معاشی ایجنڈے پر عمل کرنا چاہتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں پانچ برس کے لیے ایک آئینی، جمہوری اور مضبوط حکومت موجود ہو جو دوست ممالک اور عالمی اداروں کے ساتھ معاملات کو طے کر سکے۔ بد قسمتی سے ملک میں عدم اعتماد اور بے یقینی کی فضاء قائم ہے، اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت سے نکلنے کا واحد حل بر وقت صاف اور شفاف انتخابات ہیں، اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزکو اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ بیرونی سرمایہ کاری، سی پیک و دیگر بڑے منصوبوں میں پیش رفت خوش آئند مگر جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا، معاشی استحکام نہیں آئے گا۔
شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن اور نگران حکومت غیر جانبدار ہو۔ الیکشن کمیشن کس طرح اپنی غیر جانبداری ظاہرکرتا ہے یا کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرتا ہے، یہ اُس کی اپنی کارکردگی پر منحصر ہے، ملکی صورتحال روز بروز بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ باجوڑ کے بم دھماکے نے صورتحال کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ خیبر پختون خوا کے علاوہ بلوچستان میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے، بدامنی کی لہر پر قابو نہ پایا گیا تو خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے ساتھ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بے یقینی کی صورتحال، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا تب تک معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوگی، ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لیے حقیقی جمہوریت کی طرف جانا ہو گا اور اس میں پہلا قدم بروقت، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا ہوں گے۔ اگر انتخابی عمل اور نتائج پر سوال اٹھے تو اس کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ فیئر پلے ہونا چاہیے، عوام کو اپنے ووٹ کی آزادی ہو، جسے وہ منتخب کریں اسے مینڈیٹ دے کر سیاسی نظام کو آگے بڑھایا جائے۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ حکومت اور عسکری قیادت مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کام کر رہی ہیں، ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی طرف جانا چاہیے تاکہ سیاسی استحکام لا کر معاملات کو بہتر کیا جا سکے۔ ملک کو حقیقی جمہوریت کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی بے راہ روی ترک کرنا ہو گی، ورنہ پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات کبھی درست نہ ہو سکیں گے۔ بد قسمتی سے ماضی میں متنازع انتخابات نے جمہوریت کو داغ دار کیا۔ انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے جہاں جمہوری نظام متاثر ہونے کا ڈر ہوتا ہے، وہاں عوام کا جمہوری نظام سے اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے، شفاف انتخابات کے انعقاد کے ذریعے ہی لوگوں کا جمہوریت پر یقین مضبوط کیا جاسکتا ہے، جب تک لوگوں کو اپنے مینڈیٹ کے چوری ہونے کا خوف رہے گا تب تک ان کا جمہوریت پر یقین پختہ نہیں ہوگا۔ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کو عام انتخابات اس طرح منعقد کرانے ہوں گے کہ کوئی بھی جماعت انتخابات میں دھاندلی کا الزام نہ لگائے اور عوام کو بھی الیکشن کی شفافیت کا یقین ہو، انتخابات پرامن اور شفاف ہوں تو انتخابات کے نتائج تمام جماعتوں کے لیے قابل قبول ہوں گے۔