پاکستان کو مملکت خداداد کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک نظریہ کے تحت معرض وجود میں آیا ہے، اس نظریہ کا مطلب تھا لا الٰہ اِلا اللہ مگر اس مملکت خداداد پر مسلط ہونے والوں نے نظریاتی مطلب کو حصول اقتدار کا مقصد بنا لیا، یوں نظریہ بیانیہ بن کر رہ گیا، وطن عزیز جن مسائل اور مصائب میں مبتلا ہے اس کی بنیادی وجہ اسلام سے بے وفائی ہے نظریے سے منحرف ہونے کا ارتکاب ہے اگر پاکستان کے دو ادارے عدلیہ اور پولیس فورس دیانتداری سے اپنی ذمے داریاں نبھائیں تو پاکستان نظریاتی ریاست بن سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی جج یا جسٹس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے اپنے فرض سے انحراف کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا، حالانکہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ احتساب کا خوف ذمے داری پر عمل پیرا ہونے کا پابند کرتا ہے بلکہ مجبور کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عدلیہ اور پولیس فورس سے وابستہ شخصیات اختیارات سے تجاوز کرتی رہتی ہیں اور قانون خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔
عدلیہ کو انصاف کا مندر کہا جاتا ہے بھگوان کا گھر سمجھا جاتا ہے مگر بد نصیبی یہ ہے کہ وطن عزیز میں عدلیہ اور پولیس فورس کو غیر معمولی اختیارات کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے اور یہ وسیلہ عام آدمی کو بے وسیلہ کر دیتا ہے، ایک جج صاحب کے گھر میں ایک بچی گھریلو کام کاج کے لیے ملازمت کیا کرتی تھی جسے ملازم کے بجائے غلام سمجھا گیا اور اس سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک روا رکھا گیا، کہتے ہیں ملازم بچی کے آنے سے جج صاحب بہت خوش تھے کیونکہ بیگم صاحبہ اپنا سارا غصہ ملازم بچی پر نکالنے لگی تھیں، جن کی ذمے داری اور فریضہ مظلوموں کی داد رسی ہوتا ہے وہ سب کچھ دیکھتے رہیں، ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو تو یزیدیت کی انتہا ہو جاتی ہے، المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ یزیدیت کے مفہوم سے آگاہ نہیں، حالانکہ یزیدیت ظلم و ستم کی انتہائی صورت ہے اور ہمارا ہر ادارہ یزیدیت کا علم بردار ہے، جج ہو یا پولیس آفیسر یزیدیت پر عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔ رضوانہ نامی معصوم اور کمسن بچی پر یزیدیت کی انتہا کر دی گئی سوال یہ نہیں کہ قانون کیا کہتا ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ ملزمان کو عبرت کا نشان کیسے بنایا جائے۔ قبل ازیں بھی ایک جج صاحب کی اہلیہ نے یزیدیت کا مظاہرہ کیا تھا، گھر پر کام کرنے والی بچی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا، سزا بھی ہوئی تھی مگر وہ عبرت کا نشان نہ بن سکیں۔
وطن عزیز کے نظام عدل میں اتنی خامیاں ہیں کہ خوبی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، اگر کوئی جج یا جسٹس ایسا فیصلہ سنا بھی دے تو اسے قابل تقلید نہیں سمجھا جاتا، سابق چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار نے ایک جعلی مقدمے میں قابل تحسین فیصلہ سنایا تھا، بہاول نگر کی ایک عمر رسیدہ خاتون پر کسی نے جعلی مقدمہ دائر کر دیا جسے سول کورٹ، سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کردیا تھا مگر مقدمہ شیطان کی آنت کی طرح بزرگ خاتون سے چمٹا رہا اور جعل ساز نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر دی، چودھری صاحب نے مقدمہ دیکھا، اپیل کنندہ اور اس کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس مقدمہ کو عدم ثبوت کی بنیاد پر سول کورٹ، سیشن کورٹ اور ہائی کوٹ نے خارج کر دیا ہے تو آپ نے اس کی اپیل عدالت عظمیٰ میں کیوں دائر کی آپ کا یہ عمل عدالتوں کو تماش گاہ بنانے کے مترادف ہے، چودھری صاحب نے دیگر عدالتوں کے فیصلوں کو برقرار رکھا وکیل اور اپیل کنندہ پر جرمانہ عائد کر دیا، اگر مذکورہ فیصلے کو مثال بنا کر جعلی مقدمات کو اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر سے نکال دیا جاتا تو عدالتوں پر مقدمات کا لگا انبار ختم ہو جاتا اور عوام بھی ذہنی اذیت سے محفوظ ہو جاتے۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہمارے اکثر جج صاحبان زن مریدی میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ واپسی کا راستہ ہی نہیں رہتا، ایک جج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی عدالت میں طلاق کا مقدمہ آیا تو انہوں نے مدعی سے پوچھا تم اپنی بیوی کو طلاق کیوں دینا چاہتے ہو مدعی نے کہا کہ میری بیوی گھر کے سارے کام مجھ سے کراتی ہے حتیٰ کہ خود اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتی، جج صاحب نے کہا کہ گھر کے کام ایسے مشکل بھی نہیں ہوتے کہ آدمی کر نہ سکے، برتن دھونے سے پہلے پانی گرم کر لیا جائے تو برتن آسانی سے صاف ہو جاتے ہیں، کپڑے دھونے سے پہلے اگر انہیں بھی کچھ دیر گرم پانی میں بھگو کر رکھ دیا جائے تو آسانی سے دھل جاتے ہیں، بیگم کو شکایت کا موقع ہی نہیں ملتا، مدعی نے کہا کہ جناب میں اپنا مقدمہ واپس لیتا ہوں، کیونکہ میری بیوی کپڑے نہیں دھلواتی، گویا وہ دوسری بیویوں کی نسبت اچھی ہے، جج صاحب نے کہا کہ یوں کہو کہ دوسروں کی بیویوں سے بہتر ہے، مدعی اور جج صاحب کے مکالمے پر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اچھی اور بہتر بیوی کی تلاش بھی انتہائی ضروری ہے، بیوی کے لیے صرف عورت ہونا کافی نہیں ہوتا ضروریات زندگی میں بیوی کی کفالت بہت اہم ہوتی ہے، اگر یہ کفالت کسی عربی کفیل کی کفالت بن جائے تو زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔