متنازع مردم شماری کی منظوری، انتخابات کے التواکا کھیل

854

اتحادی حکومت کا مشترکہ مفادات کی کونسل کا پہلا اور آخری اجلاس ہوا۔ جس کا ایک نکاتی ایجنڈا متنازع سمجھی جانے والی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری پر غور کرکے اس کو منظور و مسترد کرنا تھا۔ مگر یہ اجلاس چھومنتر کی بدولت ہنگامہ خیز نہ ہوسکا۔ نامعلوم اور معلوم وجوہات کی بنا پر سندھ اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ صاحبان جو معترض ہوئے انہوں نے نتائج پر سر خم تسلیم کرتے ہوئے آمنا صدقنا کیا تو ایم کیو ایم جو نکتہ چیں تھی اس نے مردم شماری کے متعلق اختیار وزیراعظم شہباز شریف کے ہاتھ میں دے دیا۔ بقول شخصے جو نیت پیش امام کی وہی ہماری کا معاملہ کردیا۔ یوں پھر جو معاملہ منظوری کا دشوار ترین تھا وہ فٹافٹ حل ہوگیا۔ اور سب نے یک زبان ہو کر تسلیم کیا کہ ڈیجیٹل مردم شماری صاف و شفاف ہے اور یوں اب پاکستان کی آبادی کو 24 کروڑ 10 لاکھ گنا جائے گا اور یہ خوش خبری بھی سنائی گئی کہ اس مردم شماری کی بدولت 30 لاکھ سے زائد نوجوان ووٹر قرار پائے ہیں وہ پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا مزہ چکھیں گے ان نوجوانوں میں پنجاب سے 8 لاکھ 7 ہزار 550، سندھ سے 6 لاکھ 62 ہزار 422، بلوچستان سے ایک لاکھ 36 ہزار 583 اور کے پی کے سے 4 لاکھ 34 ہزار 438 فیض یاب ہوسکیں گے۔ اور یوں ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 13 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 79 لاکھ سے زائد اور خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 77 لاکھ 81 ہزار سے زائد ہوگئی۔ پہلے سے ظاہر کہ وہ اعداد و شمار کے مقابلے میں سندھ بلوچستان کی آبادی 93 لاکھ کم ہوگئی۔ ماضی قریب میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو آبادی کم دکھانے کا شکوہ تھا تو سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ بھی شاکی تھے کہ سندھ کی آبادی زیادہ ہے مردم شماری میں کم دکھائی گئی ہے ان دونوں وزرائِ اعلیٰ نے مشترکہ مفادات کونسل میں چپ سادھنے میں عافیت سمجھی۔ یہ چپ کسی قیمت پر کی گئی اور بولتی کس وجہ سے بند ہوگئی کوئی بتلائے تو ہم بتلائیں کیا۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم سراپا احتجاج ہیں کہ کراچی کی مردم شماری جو ماضی میں گھپلے کا شکار ہوتی آئی ہے اس ڈیجیٹل مردم شماری میں بھی ایک کروڑ افراد کی کٹوتی کا شکار ہوئی ہے، اس کو درست کیا جائے، کراچی کے عوام کی ترجمانی کی کہانی کوئی سننے کو تیار نہیں۔ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری سے ایک بات تو طے ہوگئی کہ انتخاب اسمبلی ٹوٹنے کے بعد مقرر دنوں میں نہیں ہوپائیں گے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنوردلشاد کا کہنا ہے کہ اس منظوری سے عام انتخابات کم از کم 15 فروری 2024 تک ہوسکیں گے۔ نئی مردم شماری کا نوٹیفکیشن نکلنے کی صورت میں الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندی کرانے کا پابند ہوگا۔ نئی حلقہ بندی کے لیے الیکشن کمیشن کو تین ماہ کی آئینی مدت کے ساتھ مزید 3 ماہ درکار ہوں گے۔ اتحادی حکومت تو سمجھتی ہے کہ جتنی دیر اتنی خیر۔ اس خیر کی خاطر وہ تین دن قبل اسمبلی توڑ کر ایک ماہ کی دیر کا سامان کرنے کا سوچے ہوئے ہیں۔
مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرا اعلیٰ شریک ہوئے ان میں دو صوبوں کے پی کے اور ایک پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ بھی شامل ہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے ان نگراں وزرا اعلیٰ کی اس اجلاس میں شرکت پر ایک قانونی نکتہ اٹھایا ہے کہ دو صوبوں میں نگراں حکومت ہیں اور نگراں وزرا اعلیٰ کا کام صاف اور شفاف انتخابات کرانا ہیں۔ کیا نگراں وزیراعلیٰ مردم شماری کے متعلق فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں، نگراں وزرا اعلیٰ مردم شماری کے متعلق فیصلہ کریں گے تو متنازع مردم شماری مزید تکراری ہوجائے گی۔ قانون کے وزیر نذیر تارڑ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ مردم شماری کے معاملے کو آئینی ادارے کے سامنے رکھا جائے مگر جانے کی جلدی اور ہڑبڑاہٹ کے شکار حکمران نے دونوں کی تجویز پر غور نہیں کیا، ایک حلقہ کا خیال ہے کہ وفاقی حکام کے ذہن میں یہ بات ہوسکتی ہے کہ اگر مردم شماری پر اتفاق رائے پیدا نہ کیا گیا تو اس کام پر خرچ دکھائے جانے والے 35 ارب روپے کا حساب کتاب گلے پڑ سکتا ہے۔ سو اس کی کتاب بند کرنے میں سب نے اپنی اپنی بھلائی سمجھی۔ یہ تو بات طے ہے کہ انتخابات اس سال ہونے سے رہے، پہلے عمران خان کا راہ کا روڑا ہٹایا جارہا ہے۔ ہاں یہ بھی قریں قیاس ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں نگراں وزرا اعلیٰ کی شرکت اور تائید کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور یوں پھر قانون کی راہداری میں معاملہ طول پکڑے اور نگراں حکومت کی قانونی عدالت کا سامان ہوجائے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے الیکشن کمیشن کو دس ارب روپے مل گئے ہیں۔ باقی عندالضرورت ملیں گے نظریہ ضرورت پھر کام دکھا دے گا! یوں کھیل ختم، پیسہ ہضم۔
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق کو بھی اس گڑبڑ گھٹالے کے کھیل کو ملاحظہ کرتے ہوئے کہنا پڑ گیا۔ عوام سے خوف زدہ حکمراں انتخاب میں تاخیر چاہتے ہیں۔ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری پر حکومتی و اپوزیشن سینیٹرز کا احتجاج ہوا اور الیکشن کمیشن سے حلقہ بندیوں کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی، مجلس قائمہ سیاسی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے کہا کہ مردم شماری کی اتفاق رائے سے منظوری کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ اتحادی حکومت کو انتخاب میں تاخیر کے لیے استعمال کیا گیا۔ عملاً مردم شماری متنازع ہے۔ متنازع مردم شماری کی آڑ میں انتخابات کا التوا نامنظور ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان عطا بندیال کے لیے موقع ہے کہ تمام ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دیں اور متنازع مردم شماری آئین کے دو آرٹیکلز کے ٹکرائو سے 24 کروڑ عوام کے جمہوری حق میں تاخیر کا نوٹس لیں اور اس آئینی تنازع کی عدالت عظمیٰ تشریح کرے اور آئین، جمہوریت، عدل کے نظام کی حفاظت کرے۔ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے بھی کہا ہے کہ انتخابات ملتوی کرنے کی سازش ہورہی ہے۔