نگراں حکومت اور انتخابی بھینس کا مستقبل؟

646

اب جانے والی حکومت الوداعی کھانا کھانے میں مصروف ہے۔ ہمارے ایک صحافی کا مقولہ ہے۔ عزت اللہ نے بہت دی ہے ہم کھانے کے بھوکے ہیں اس رائے سے معاشرے کے چلن دیکھتے ہوئے بھی متفق ہونا ضروری نہیں۔ حکومت نے 9 اگست کو اپنی حکومت کا آخری دن قرار دیا ہے۔ 9 کا عدد نائن الیون اور 9 مئی کے حوالے اور بہت سی خصوصی شہرت کا حامل ہے اور طوفان بلاخیز کا حامل ہے۔ 12 اگست تک حکومت کی معیاد تھی تو کچھ تین دن قبل حکومت چھوڑنے کا مطلب انتخاب اگر ہوں تو ہم میں ایک ماہ مزید کی مہلت میسر آئے گی تو بھلا جانے والی کو کس نے روکا ہے اب آنے والوں پر نظر ہے، کون گدی نشین بنایا جاتا ہے اور کس کے سر پہ اقتدار کا ہما بیٹھتا ہے، خواہش مندوں کی تعداد دس شخصیات کی بتائی جاتی ہے ان میں جسٹس (ر) تصدق جیلانی، محسن بیگ، ماہر معیشت حفیظ شیخ، رضا باقر، شمشاد اختر، ذوالفقار مگسی، اسلم رئیسانی، شبر زیدی اور سابق گورنر سندھ عشرت العباد بتائے جاتے ہیں۔ کسی ریٹائرڈ جنرل کا نام ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔ نگراں وزیراعظم پر تجزیہ نگاروں کی گہری نظر ہے اگر ماہر معیشت بنایا گیا تو انتخابی بھینس گئی پانی میں۔

پی پی پی کے سینئر رہنما وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے خوب کہا کہ نگراں وزیراعظم غیر جانب دار ہونا چاہیے کسی سابقہ رکن قومی اسمبلی، سینیٹر یا وزیر کو نگراں وزیراعظم نہیں بنانا چاہیے۔ کسی سابق رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر کو بھی نہیں ہونا چاہیے بہتر لوگ موجود ہیں اچھے لوگ مل جائیں گے، اگر خورشید شاہ کو نامزد کرکے پی پی پی کا وزیراعظم بن جائے تو کون اعتبار کرے گا شفاف انتخاب ہونے پر میں بھی شفاف انتخاب نہیں کرواسکتا کیونکہ میں بھی پارٹی کے ساتھ ہوں۔ جماعت اسلامی کے رہنما رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو نگراں وزیراعظم بنادیا۔ عدالت عظمیٰ بھی ان کو 62-63 پر پورا قرار دے کر صادق و امین کی سند دے چکی ہے۔ یاد رہے کہ ایک مرحلہ میں نگراں وزیراعظم کے لیے صدر فاروق لغاری نے قاضی حسین احمد کا نام دیا تو آرمی چیف اسلم بیگ کو پسند نہ آیا۔ بھلا جماعت اسلامی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نہ کھاتے ہیں نہ کھانے دیں گے۔ سیاست کا چلن اب ہڈی توڑ کر کھانے اور باٹنے کا ہوگیا ہے، جو اب تک جماعت اسلامی میں سرایت نہ کرسکا۔ ملک کی ڈاواں ڈول معیشت اور لوٹ کھسوٹ کی سیاست کا تقاضا ہے کہ دیانت دار، آزمودکار صالح نگراں وزیراعظم ہو اور وہ اس گمبھیر صورت حال سے نکال سکے ورنہ اگر وہ ہی گھسے پٹے افراد میں سے خانہ پُری کی گئی تو ملک کو بحران سے نہیں نکالا جاسکے گا۔ سرحدوں کی صورت حال کا تقاضا بھی ہے کہ مضبوط، مستحکم، ایماندار، حب وطن سے سرشار نگراں حکومت فری ہینڈ کے ساتھ قائم کی جائے، جماعت اسلامی ہی اس کی حامل ہے۔