درس گاہ یا چرس گاہ

622

میرے سامنے دو خبریں پڑی ہیں ایک نے بے حد پریشان کردیا دوسری خبر خوش کن تھی باعث فخر خبر یہ تھی کہ یورپی یونیورسٹی میں اسکالر شپ پاکستانی طلبہ مسلسل دوسرے نمبر پر دنیا بھر میں سرفہرست اس سال 192 طلبہ نے وظائف حاصل کیے جن میں 103 مرد اور 89 خواتین ہیں جب یہ تعلیم حاصل کرکے واپس پاکستان آئیں گے تو پتا نہیں ان کا کیا حال ہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں تو میرٹ نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، نوکری اگر ہے تو ملک کے سیاست دانوں کے بچوں کے لیے، اُن کے رشتے داروں کے لیے یا بااثر جاگیردار، سرمایہ دار کے بچوں اور رشتے داروں کے لیے، ملک نے بڑے بڑے قابل لوگوں کو رکشہ چلاتے دیکھا ہے۔ خیر آج نہیں تو کل اس ملک میں انقلاب ضرور آئے گا اس ملک کے 65 فی صد نوجوان اگر اُٹھ کھڑے ہوں تو یہ سارے چور و ڈاکو راتوں رات ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ عمران خان بہت کچھ کرسکتے تھے مگر افسوس کہ انہوں نے بھی نوجوانوں کا غلط استعمال کیا، ریاست مدینہ کی امید بھی دم توڑ چکی، جن کے قول و فعل میں تضاد ہو وہ کبھی ریاست مدینہ نہیں بنا سکتے۔ ریاست مدینہ کا خواب صرف جماعت اسلامی پورا کرسکتی ہے۔

ہمارے ملک میں غریب کو تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے، آپ نے دیکھا اور اخبارات میں بھی پڑھ ہی لیا ہوگا کہ ایک جج صاحب کی فرعون صفت بیگم نے ایک 13 سالہ بچی جو اُن کے گھر میں ان کی خدمت کررہی تھی اس پر اتنا تشدد کیا کہ حوا کی بیٹی شدید زخمی ہوگئی۔ یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔ جاگیردار، وڈیرے، چودھری حضرات اپنے ملازمین پر اس طرح سے ظلم کرتے آرہے ہیں کچھ تو طاقت کے نشے میں چور ہو کر ان کو اپنے پالتوں کتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں بنت حوا کی عزت داغ دار کرتے ہیں، سرے عام سر سے چادر اتار لیتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کیس بھی نہیں بنتا، وجہ ہوتی ہے علاقے کی پولیس اگر کوئی غریب ہمت کرکے تھانے چلا بھی جائے تو وہ بااثر جاگیردار کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کرواسکتا بلکہ الٹا پولیس اس کو بند کردیتی ہے، اس کے خلاف چوری یا کوئی اور ناکردہ جرم کی ایف آئی آر کاٹ کر اس کو جیل بھیج دیتی ہے۔ یہ ظلم برسوں سے ہورہا ہے اس وقت موجودہ حکومت جلد بازی میں بل پر بل پاس کروا رہی ہے کوئی بولنے والا نہیں اللہ بھلا کرے مشتاق احمد خان کا جو جماعت اسلامی کے جرأت مند، دلیر سینیٹر ہیں جو علی بابا ہیں اور40 چوروں کا اکیلے مقابلہ کررہے ہیں۔

اب چلتے ہیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف جہاں سے آنے والی خبر نے شرم سے سر جھکا دیا۔ سینئر کالم نگار، ایڈیٹر مظفر اعجاز صاحب نے بے حد احتیاط کے ساتھ کام لیا ہے جبکہ سوشل میڈیا نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ طالبات کی 5500 نازیبا ویڈیوز اسکینڈل کی اندرونی کہانی جو منظر عام پر آئی ہے اس میں ایم این اے چودھری طارق بشیر چیمہ کے بیٹے کا نام منظر عام پر آرہا ہے جو آئس کے نشے کا عادی ہے، یونیورسٹی کی طالبات کو بلیک میل کرکے زیادتیاں کرتا ہے۔ جب یہ بات چودھری طارق کے علم میں آئی اور ان کو پتا چلا کہ وہاں کا سیکورٹی چیف اعجاز شاہ بھی اس گینگ کا حصہ ہے تو طارق بشیر نے پولیس سے ذاتی تعلقات کی بنا پر سفارش کی کہ میرے بیٹے کو بچالیا جائے اور اعجاز شاہ کو گرفتار کیا جائے اور ویڈیوز اور تصاویر کو برآمد کیا جائے اور میرے بیٹے کی نازیبا ویڈیوز کو ڈیلیٹ کروایا جائے تا کہ وہ سوشل میڈیا پر نہ آجائے۔ پولیس حکام نے اعجاز شاہ کو موقع پر ثبوتوں کے ساتھ گرفتار کرلیا اور بڑی تعداد میں نازیبا ویڈیوز اور تصاویر والے موبائل کو بھی برآمد کرلیا۔ اعجاز شاہ نے انکشافات کیے کہ صرف چودھری طارق کا بیٹا نہیں بلکہ اس میں بااثر سیاسی شخصیات اور بااثر افسران کے بیٹے بھی شامل ہیں۔ اعجاز شاہ سیکورٹی کیمرے کے ذریعے دیکھتا طالبات درختوں کے نیچے اور عمارتوں کے ساتھ اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ بوس و کنار کرتے گلے ملنے اور سگریٹ پینے کے ویڈیو کلپ سیکورٹی کیمروں میں محفوظ ہوجاتے تو اعجاز شاہ اس طالبہ کو بلا لیتا تھا کہ یہ ویڈیو کلپ آپ کے والدین کو بھیج رہے ہیں تو طالبات گھبرا جاتی تھیں کہ آپ کو اللہ کا واسطہ ایسا نہ کریں، پھر اعجاز شاہ اُن لڑکیوں کو بااثر افراد کے ڈیروں پر اپنی گاڑی میں پہنچا کر آتا جہاں ظلم کی داستان رقم کی جاتی تھی اور اس کے ساتھ طالبات کو نشہ کا عادی بنادیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا۔ اعجاز شاہ نے دوران تفتیش سنسنی خیز انکشافات کیے کہ اس کے ساتھ یونیورسٹی کے پروفیسرز اور اسٹاف بھی شامل ہیں، یہ سب کچھ سوشل میڈیا بتارہا ہے، تمام بڑے چینل اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

اے ابن آدم اسلامیہ یوینورسٹی کا شمار دنیا کی بہترین درس گاہوں میں ہوتا ہے اس سے جو لوگ پڑھ کر نکلے ہیں وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، مجھے لگتا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑی سازش ہے جس کا بے نقاب ہونا بے حد ضروری ہے۔ ایسی بے شمار یونیورسٹیاں موجود ہیں، کالج موجود ہیں جہاں نشہ ہوتا ہے، آئس کا نشہ زیادہ تر پوش علاقوں اور پوش علاقوں میں موجود درس گاہوں میں ہوتا ہے، یہ بھی ایک رپورٹ ہے بوس و کنار بھی عام ہے مگر اداروں کے لوگ اس میں ملوث نہیں ہوتے بلکہ ان طالب علموں کو سمجھاتے ہیں اور ان کی تربیت کرتے ہیں ان کو بلیک میل نہیں کرتے جس طرح سے اسلامیہ یونیورسٹی کے عملے نے کیا۔ اس پر تو عدالت کو فوری کمیشن بنانا چاہیے اور جو بھی ملوث پایا جائے اس کو نشان عبرت بنادیا جائے یہ میری نسلوں کی بقا اور سلامتی کا مسئلہ ہمارے بہن، بیٹیوں کی عزت و ناموس کا مسئلہ ہے۔ مجھے حیرت ہے حاکم وقت سو رہا ہے، اعلیٰ حکام سو رہے ہیں، انصاف کو بھی بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔