لوٹ سیل کی جنگ

765

برانڈ کے سستے کپڑوں کے لیے خواتین لڑ پڑیں۔ تکرار لاتوں، مکوں اور گھونسوں میں بدلی۔ اپنے مردوں کو بھی بلالیا وہ آپس میں گتھم گتھا ہوئے جوتوں سے پٹائی کی اسلحہ لہراتے اور گولیاں چلاتے رہے۔ معاملہ اس وقت قابو میں آیا جب اسٹور کی انتظامیہ نے پولیس بلائی۔ بعد میں متاثرہ خاتون نے مقدمہ درج کرایا۔ یہ نہ سنی سنائی ہے نہ اُڑی اُڑائی بلکہ آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی ویڈیو اور خبر ہے جو سارے ہی چینلوں نے چلائی۔ متعلقہ برانڈ کی پروموشن تو ہوگئی لیکن پاکستانی خواتین کی خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ عینی شاہدین اس ہنگامے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد دکان کے باہر جمع تھی وہ بھی صبح سویرے۔ بے تابی سے سیل کے آغاز کا انتظار کررہی تھیں دروازے کھلتے ہی ایسے بھاگیں ہیں کپڑے مفت مل رہے ہوں یا غریب آٹے کے لیے۔ گویا وہ جنونی انداز تھا کہ پہلے لینے کے لیے دوڑ رہی تھیں۔ ایک دوسرے سے سوٹ چھین رہی تھیں جھگڑے کررہی تھیں پھر یہ واقعہ تو گویا ایسا تھا کہ دکان میں افراتفری ہی مچ گئی۔ خواتین نے مدد کے لیے اپنے مردوں کو بلالیا اور پھر جو ہوا اس نے ہمارے معاشرے کی تہذیب کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔

پاکستان میں مہنگائی کا جو حال ہے اس کے بعد کپڑوں کی خریداری کے لیے یہ حال کچھ مختلف کہانی سناتا ہے۔ کیا ملک میں غربت بڑھ رہی ہے؟ یا پھر یہ برانڈز اسٹورز مفت میں کپڑے بانٹ رہے ہیں؟ بات یہ ہے کہ غربت اپنی جگہ بڑھ رہی ہے اور مہنگائی کا حال تو یہ ہے کہ روزانہ کے حساب سے اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح میں 35.37 فی صد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو پچھلے پچاس برسوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر معاشیات شاہدہ وزارت کہتی ہیں کہ ’’جس طرح مہنگائی بڑھ رہی ہے مجھے یقین ہے کہ قحط جیسی صورت حال اُبھر رہی ہے‘‘۔ چار ماہ قبل صرف کراچی میں مفت راشن کی تقسیم کے مرکز میں بھگدڑ مچنے سے عورتوں اور بچوں سمیت 16 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جبکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ مہنگائی کے باعث لوگ بچوں کو تین کے بجائے دو وقت کھانا کھلا رہے ہیں وہ بھی پیٹ بھر کر نہیں۔ غربت اور مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا پارہے کہ بچوں کو کھلائیں یا تعلیم دلوائیں؟۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ یعنی تعلیم سے محروم ہیں، حالانکہ غریب سے غریب ماں باپ کی بھی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ اَن پڑھ والدین بھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن مجبور ہیں کہ مہنگائی کے باعث بچوں کا پیٹ بھرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں ان خواتین کا مہنگے برانڈڈ کپڑوں کا شوق دیکھا نہ جائے۔ دکانوں کے باہر خواتین کا میلہ لگا ہم نے بھی دیکھا ہے سیل کا لالچ ماڈرن خواتین کو شہد کی مکھیوں کی طرح جمع کردیتا ہے۔ اِدھر ڈیزائنرز کی لان کی لانچ کے موقعوں پر پہلے بھی کھینچا تانی کے مناظر رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ڈیزائنر کے لان پہلے خریدنے اور پہلے پہنے کے چکر میں گاڑی کی ڈگری میں پانی سے بھری بالٹی رکھی جاتی ہے کہ ادھر خریدیں اور ادھر بھگو کر درزی کو پہنچا سکیں۔ یعنی پھر کہہ سکیں ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ خواتین کو مہنگے کپڑوں کا شوق اور اس سے بڑھ کر جتاتے اور دکھانے کا جنون۔ ملازمت کے لیے نکلنے والی خواتین کی آدھی تنخواہ تو اس طرح کے شوق کی نظر ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو ڈیزائنر کی طرف سے باقاعدہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ بہترین لان کے ڈیزائن خریدنے کے لیے خواتین کو فروری ہی میں کمر کس لینی چاہیے کیونکہ اسی مہینے میں ہر برانڈ اپنی نئی لان کے ڈیزائن لانچ کرتا ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ کمر سال کے کسی بھی مہینے میں کس لیں اور سیل کی تلاش سال کے سارے مہینوں میں کرتی رہیں لیکن بدتہذیبی کے ایسے مظاہرے سے اجتناب کریں۔ کوئی بات نہیں اگر کوئی پسندیدہ سوٹ ہاتھ سے نکل جائے، کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ یہاں مردوں کا حال بھی کچھ کم نہیں۔ بجائے اپنی خواتین کو سمجھا بجھا کر گھر لے جانے کے ہاتھا پائی اور جوتم پیزار شروع کردی۔ حد یہ کہ اسلحے کی نمائش اور فائرنگ۔ اب مقدمہ بھگتنے میں وکیلوں کی فیسیں اور پولیس تھانے کے چکر میں خواری ساتھ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان کی بھی بدنامی۔ کیا کوئی سبق سیکھے گا یا وہی سوچ کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔