کراچی میں پانی اور بجلی کا بحران سنگین ہوگیا ہے اقتصادی شہر کراچی میں پانی کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت شہر کے تقریباً ہر دوسرے شخص کو اْس کی ضرورت کا پانی مل نہیں پارہا ہے، اور کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کے گھروں میں پانی آتاہی نہیں ہے۔ شہر میں فراہمی ِ آب کا نظام کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جس کے چیئرمین میئر کراچی مرتضیٰ وہاب بن گئے، لیکن اصل بات یہی ہے کہ یہ سارا نظام پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں بٹا ہوا ہے، یہ ادارہ سیاسی اور بدعنوان لوگوں کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہے۔ اس وقت پانی کے بحران سے نمٹنے میں ایک بڑی رکاوٹ واٹر بورڈ کے اندر سیاسی مداخلت اور بدعنوانی ہے۔ میرٹ کے بجائے سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر نااہل اہلکاروں کے تقرر نے ادارے کی سالمیت اور فعالیت کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ بحران سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے، واٹر بورڈ کے اندر میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں، شفافیت اور جوابدہی کو ترجیح دینا ضروری ہے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت میں امید بھی رکھنا عبث ہے۔ پانی کی لائنوں میں رسائو، سرکاری ہائیڈرنٹس اور والو آپریشن میں گڑبڑ بھی پانی کے بحران کی اہم وجوہات ہیں۔ واٹر بورڈ کے عملے کی ملی بھگت سے پانی کا مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اب تقریباً پورے شہر کے شہری ہی وقتاً وفوقتاً ٹینکروں کے ذریعے مہنگے داموں پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت تین کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر کو باوجود اس کے بارش کی وجہ سے کراچی کو پانی کی فراہمی کینجھر جھیل اور حب ڈیم لبالب بھرے ہیں لیکن لوگوں کو پانی نہیں مل رہا ہے۔ اس میں ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ کراچی کے جن علاقوں میں پانی نلکوں کے ذریعے فراہم بھی ہورہا ہے تو وہاں بڑی تعداد آلودہ پانی پی رہی ہے جس کی وجہ سے ان میں بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں کئی علاقوں میں پینے کے پانی کی لائنیں گندے پانی کے نالوں کے قریب سے یا اندر سے گزر رہی ہیں۔ اس وقت پانی کی وجہ سے پورا شہر سراپا احتجاج ہے یا پانی کی تکلیف سہہ رہا ہے، لوگ گھنٹوں نلکوں سے پانی کے منتظر رہتے ہیں۔ جس کا سماجی اور معاشی اثر پڑ رہا ہے، مردوں کی ملازمتیں مشکل میں پڑی ہیں کاروبار تباہ ہورہا ہے کہ وہ پانی کے بندوبست میں ہی لگے رہتے ہیں، جہاں ایسا نہیں ہے وہاں پانی بھرنے کی زیادہ تر ذمے داری خواتین اور بچے ادا کررہے ہیں۔ اس دوران ستم یہ ہوا ہے کہ جہاں شہر میں ایک طرف پانی کا بدترین بحران برقرار ہے وہیں دوسری طرف واٹر کارپوریشن نے مختلف علاقوں میں بقایا جات کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں اورکارپوریشن نے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے بقایا جات جلد ادا کریں بصورت دیگر ان بقایا جات کی وصولی کے لیے ان کی جائدادوں کی قرقی ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ بجلی کی بندش بھی شہر میں ایک اہم مسئلہ اور بجلی کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا، کئی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 گھنٹے تک جاپہنچا ہے دو چار گھنٹے تو معمول کی بات ہے۔
پانی کی کمی کے حوالے سے ایک پہلو یہ بھی ہے پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے صرف 7.113 ملین ایکڑ فٹ پانی بچایا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب ضائع ہونے والا پانی استعمال میں آئے گا تو پانی کا مسئلہ بہت حدتک حل ہوجائے گا، اور پھر شاید قلّت کا مسئلہ ہو ہی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مملکتِ خداداد کو ہر معاملے میں نوازا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران جزوی طور پر انسانوں ہی کا پیدا کیا ہوا ہے، کیونکہ اس حوالے سے کوئی سنجیدہ اور مستقل بنیادوں پر کوشش دیکھنے کو ملتی ہی نہیں ہے، کچھ ہوتا بھی ہے تو محض نمائشی ہوتا ہے۔
اس وقت کراچی کے لوگوں کے ساتھ جماعت اسلامی سراپا احتجاج ہے اور جماعت اسلامی کی جاری حقوق کراچی تحریک کے سلسلے اور شہر بھر میں پانی کی شدید قلت و بحران، غیر منصفانہ تقسیم، پانی چوروں و ٹینکر مافیا اور غیر قانونی ہائیڈرینٹ کی سرکاری سرپرستی کے خلاف جمعہ کو شاہراہ فیصل واٹر بورڈ ہیڈ آفس پر احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا جس میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے دھرنے کے شرکاء سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ہم دبارہ دھرنا دیں گے، کراچی کے شہریوں کو پانی بھی نہیں دیا جارہا ہے۔ برسوں سے گڈاپ میں پیپلز پارٹی مسلسل جیتتی چلی آرہی ہے لیکن اس نے گڈاپ کے لوگوں کو پانی نہیں دیا، پانی کی تلاش میں دو بچیاں ملیر ندی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئیں اور ان معصوم بچیوں کی میت کو غسل دینے کے لیے بھی پانی موجود نہیں تھا۔ انہوں نے اس واقعے پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بتائیں کہ گڈاپ میں 53سال سے جیت رہے ہیں آپ نے وہاں پانی فراہم نہیں کیا تو کراچی کے عوام کو کیسے پانی دیں گے۔ شاہراہ فیصل واٹر بورڈ ہیڈ آفس پر حالیہ احتجاجی دھرنا کراچی کے باسیوں کی مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ احتجاج میں پانی غیر منصفانہ تقسیم، پانی کی چوری، ’’ٹینکر مافیا‘‘ کا تسلط اور غیر قانونی ہائیڈرنٹ آپریشنز کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ اس دھرنے میں حافظ نعیم الرحمن نے کے الیکٹرک کے حوالے سے بھی اظہار خیال کیا جو شہر کے عوام کی آواز ہے اْن کا درست کہنا تھا کہ ’’نیپرا، کے الیکٹرک اور وائٹ کالر کرمنلز کا شیطانی اتحاد ہے جو شہریوں پر ظلم کررہے ہیں۔ شہری کے الیکٹرک کی جانب سے بھیجے گئے بھاری بلوں سے پریشان ہیں۔ ایم کیو ایم نے سب سے پہلے کے ای ایس سی کو مشرف کے ساتھ مل کر کھمبوں کی قیمت میں فروخت کیا۔ ایم کیو ایم نے ہمیشہ سے کراچی کے عوام کا سودا کیا ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کے خواب جو چکنا چور کیا‘‘۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’’کے الیکٹرک کے لائنسنس کو فوری منسوخ کر کے اس کا فارنزک آڈٹ کیا جائے، ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیوشن کے لیے نئی کمپنیوں کو شامل کیا جائے‘‘، حافظ نعیم الرحمن نے یہ بھی بتایا کہ جب نیپرا کے اجلاس میں بجلی کے فی یونٹ میں 7 روپے بڑھانے کی بات کی جارہی تھی تو نیپرا کے اجلاس میں سوائے جماعت اسلامی کے کسی پارٹی نے شرکت نہیں کی اس وقت کراچی کے لوگ کراچی واٹر بورڈ اور کے الیکٹرک کی وجہ سے اذیت کا شکار ہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں فوری طور پر شہر کراچی کے پانی وبجلی کے بحران کو کم کرنے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی اقدام کی ضرورت ہے۔ پانی کے حوالے سے سب سے پہلے، بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرنے، سرمایہ کاری، بشمول پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک، سیوریج سسٹم، اور پانی کی صفائی کی سہولت، ضروری ہے۔ پھر اس کے ساتھ پانی کی چوری، غیر قانونی ہائیڈرنٹ چلانے والوں اور ٹینکر مافیا کے خلاف سخت ضابطے اور ان کا نفاذ ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو پیپلز پارٹی اس شہر پر برسوں سے قابض ہے وہ ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہوسکتی ہے یا اس سے امید لگائی جاسکتی ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کراچی کی قیادت اس کے اصل نمائندوں کو دی جائے کیوں کہ یہ مسائل اسی صورت میں حل ہوسکتے ہیں کہ جب اہل اور ایماندار لوگ شہر کا نظام چلائیں ورنہ شہر میں ایک بڑی بغاوت یا انارکی کے خطرے کو سوچنے، سمجھنے اور و فکر کرنے والے محسوس کررہے ہیں جو یقینا کسی کے لیے اچھا نہیں ہوگا اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ کراچی کے مسائل کو سنجیدہ لیا جائے۔