پاکستان کی معاشی بحالی کے امکانات

511

10جولائی 2023 کو اسلام آباد میں ’’گرین پاکستان سیمینار‘‘ منعقد ہوا، اس میں وزیر اعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف نے خطاب کیا، وزیرِ اعظم کا خطاب براہِ راست نشر ہوا، لیکن چیف آف آرمی اسٹاف کا خطاب براہِ راست نشر نہیں ہوا، ایسا معلوم ہوتا ہے: ’’ اُن کی پالیسی ہے کہ غیر ضروری تشہیر سے گریز کیا جائے‘‘، یہ اچھی بات ہے، کیونکہ تشہیر کی بیماری لاحق ہوجائے تو پھر لاعلاج ہوجاتی ہے، ان کے پیش رو اسی نفسیاتی کمزوری کا شکار ہوئے، وہ غیر ملکی دورے بھی کرتے، فوجی سربراہان کے علاوہ غیر ملکی حکمرانوں، فوجی سربراہان اور سفارت کاروں سے اُن کی ملاقاتیں بھی جاری رہتیں، نیز معاشرے کے تمام طبقات صنعت کاروں، تاجروں، صحافیوں اور علماء ومشایخ کے ساتھ بھی انہیں مجالس منعقد کرنے کا شوق تھا، کثرتِ گفتار اور بسیار گوئی کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، فارسی کا مقولہ ہے: ’’تامرد سخن نگفتہ باشد، عیب وہنرش نِہُفتہ باشد‘‘، یعنی جب تک آدمی بات نہ کرے، اُس کی خوبیاں اور خامیاں پردۂ اِخفا میں رہتی ہیں، انسان طاقت کے زعم میں اپنے آپ کو ہرفن مولا سمجھتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، اس کو مدح سرا اور قصیدہ گو بھی مل جاتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ اس سے مخلص نہیں ہوتے، مطلب پرست ہوتے ہیں۔

پی ٹی وی کے ٹویٹر پیج پر چیف آف آرمی اسٹاف کے خطاب کا جو متن پیش کیا گیا، وہ حسبِ ذیل ہے:

’’ہم سب یہاں پاکستان کو ایک بار پھر سر سبز کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، پاکستان کو اللہ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، ہم باصلاحیت قوم ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ مل کر اس کی ترقی میں حصہ ڈالیں، ہم پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بحیثیت ادارہ مکمل جانفشانی کے ساتھ تعاون کا یقین دلاتے ہیں، پاکستان کو ترقی کی منازل طے کرنی ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی، پاکستان میں ہر طرح کی صلاحیت موجود ہے جو اسے عروج پر لے جاسکتی ہے۔ مسلمان کے لیے نا امیدی کفر ہے، مسلمان پر جب مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور خوشی ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے، انہوں نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے‘‘، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بعض وی لاگرز نے کچھ مزید نکات کا اضافہ کیا ہے:

’’چیف صاحب نے پاکستان میں سونے، تانبے، کوئلے اور دیگر معدنیات کا حوالہ دیا اور کچھ اعداد وشمار بھی پیش کیے، نیز یہ بھی کہا: ’’ہم سروے کریں گے کہ پاکستان میں کہاں کہاں اور کتنی زمین غیر آباد پڑی ہے، اس کے لیے چین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور شاید قطر وغیرہ کو سرمایہ کاری کی دعوت دیں گے، وہ جدید زرعی آلات اور جدید طریقوں سے اُسے کاشت کریں گے، بیج بھی اعلیٰ معیار کے ہوں گے، فی ایکڑ پیداوار عالمی معیار پر ہوگی اور ایسی فصلیں کاشت کی جائیں گی، جو اُن ملکوں کی ضرورت ہیں۔ پھر وہ اس کا ایک حصہ اپنی سرمایہ کاری کے منافع کے طور پر اور مزید اگر مطلوب ہوگا تو پاکستانی برآمدات کے طور پر اپنے ممالک میں لے جائیں گے، یہ زرِ مبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ ہوگا اور مقامی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ چھیالیس لاکھ ایکڑ قطعۂ اراضی کا تعیّن کردیا گیا ہے اور سٹیلائٹ سروے کے ذریعے مزید زمین تلاش کی جائے گی‘‘۔ یقینا ایف اے ٹی ایف کی طرح اس کے لیے بھی جی ایچ کیو میں اسپیشل ڈیسک یا اسپیشل ٹاسک فورس قائم کی جائے گی، اُس وقت تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے دبائو تھا، اس لیے اُدھر سے جو احکام نازل ہوئے، اپنے زمینی حالات کے مطابق اُن کا مطالعہ کیے اور جائزہ لیے بغیر انہیں مِن وعَن نافذ کردیا گیا۔ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں ایک دن میں پارلیمنٹ سے 33قوانین منظور کرالیے گئے، متعلقہ وزارتوں نے اُن کا مطالعہ کیا اور نہ ارکانِ پارلیمنٹ نے اُن کا جائزہ لیا، بس عُجلت میں مصیبت ٹالنے کے لیے یہ کام کردیے گئے۔ چنانچہ جب وقف کا عجیب وغریب اور خلافِ شرع ایکٹ پاس ہوا اور اُس پر احتجاج ہوا تو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا: ’’اس میں ترامیم تجویز کریں، ہم پارلیمنٹ سے منظور کرادیں گے‘‘۔ انہیں قانون سازی کے طریقے پر ترمیمی بل بھی بناکے دیا گیا، لیکن پھر کچھ بھی نہ ہوا، اب وقتی طور پر یہ قانون معطل ہے، مگر قانون کی کتاب میں درج ہے۔

پھر 24جولائی کو چیف صاحب نے ’’خانیوال ماڈل ایگریکلچر فارم‘‘ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’پاک فوج کو اپنی قوم کی خدمت پر فخر ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو موجودہ بحران سے نکال کر دم لیں گے، فوج عوام سے ہے اور عوام فوج سے ہیں‘‘، انہوں نے مزید کہا: ’’پاکستانی غیرت مند، غیور اور باصلاحیت قوم ہیں، تمام پاکستانیوں نے بھیک کا کشکول اٹھا کر باہر پھینکنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو تمام نعمتوں سے نوازا ہے، ان شااللہ پاکستان میں زرعی انقلاب آکر رہے گا۔ ہم اس ماڈل فارم کی طرز کے جدید فارم بنائیں گے جس سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہوگا، نیز سرسبز پاکستان کی اس تحریک کو پورے پاکستان میں پھیلا یا جائے گا‘‘، انہوں نے مزید کہا: ’’ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، عوام اور ریاست کا رشتہ محبت اور احترام کا ہے، سیکورٹی اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، قومی سلامتی اور مستحکم معیشت لازم وملزوم ہیں، انہوں نے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے علامہ اقبال کا شعر پڑھا:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا

چیف صاحب نے یقین دلایا: وہ سرسبز اور خود کفیل پاکستان کی اس مہم پر پہرا دیں گے اور اُن کا تعاون شاملِ حال رہے گا۔

ہمارے ہاں خوش آئند اعلانات تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن کبھی انہیں روبہ عمل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، جسٹس ثاقب نثار نے جھونپڑی ڈال کر ڈیم پر پہرہ دینے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے، لیکن یہ سب دعوے شہرت پسندی کے لیے تھے، فریب تھے، سَراب تھے، حقیقت سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا، انہیں منصبی اختیارات کا ایک زُعم تھا، عُجب تھا، کِبر تھا، تعلّی تھی، اس لیے حقیقت آشکار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

ہم انتہائی اخلاص کے ساتھ دعا گو ہیں کہ چیف صاحب کے الفاظ اور یہ دعوے ماضی کی طرح صدا بصحرا ثابت نہ ہوں اور کوئی عملی نتیجہ برآمد ہو۔ قومی اقتصادی منظر سے مایوسی کے بادلوں کا چھٹنا، قوم کے ذہنوں میں امید کی شمع جلانا اور ان کے دلوں میں ایمان ویقین کی جَوت جگانا اچھی بات ہے، راویوں نے بتایا: چیف آف آرمی اسٹاف نے قرآنِ کریم کی آیاتِ مبارکہ تلاوت کیں اور اُن کا ترجمہ سنایا، اس پر حاضرین نے جوش وخروش کا مظاہرہ کیا اور ہال تکبیر و رسالت کے نعروں سے گونج اٹھا۔

علمائے ربّانیین نے کہا ہے: ’’حقیقتِ ایمان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید اور اُس کے عذاب سے خوف کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے‘‘، یعنی انسان نہ تو بالکل اُس کی رحمت سے مایوس ہوجائے اور نہ یکسر اُس کے عقاب وعتاب سے بے خوف ہوجائے۔

اس موضوع پر آیات درج ذیل ہیں:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ (اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے (گناہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ معاف فرمادیتا ہے، بے شک وہی بخشنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (الزمر: 53) اس میں راہِ راست سے بھٹکے ہوئے اور بہکے ہوئے بندگانِ خدا کو مایوسی کے قعرِ مَذلَّت میں گرنے سے بچانے کے لیے رحمتِ باری تعالیٰ کی امید دلائی گئی ہے، اس کی مزید وضاحت قرآنِ کریم میں یوں فرمائی گئی ہے: ’’اور ہم نے ہر رسول صرف اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے رسولِ مکرّم!) جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو یہ اُسی وقت آپ کے پاس آجاتے، پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا، بے حد رحم فرمانے والا پاتے‘‘۔ (النساء: 64) شیخ ابوسعید ابوالخیرنے کہا ہے:

باز آ، باز آ، ہر آنچہ ہستی، باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی، باز آ
ایں درگہِ ما، درگہِ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی، باز آ

ترجمہ: ’’رحمتِ باری تعالیٰ پکار رہی ہے: اے میرے بندے! اگر تم راہِ راست سے بھٹک گئے ہو، تو تم جو کوئی بھی ہو اور جیسے بھی ہو، واپس میری طرف پلٹ آئو، اگر تم کافر، آتش پرست اور بت پرست ہوچکے ہو، تب بھی واپسی کا راستہ کھلا ہے، ہماری یہ بارگاہ ناامیدی کی جگہ نہیںہے، اگر تم نے سوبار بھی پیمانِ وفا باندھ کر توڑ دیا ہے، تو آئو، ایک بار پھر پلٹ کر ہماری رحمت کی آغوش میں آجائو‘‘، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اور جب ان کے پہلے سے کیے ہوئے برے کاموں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں‘‘۔ (الروم: 36) ’’اور جب ہم انسان کو نعمتوں سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچاکر ہم سے دور ہوجاتا ہے اور جب اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو پھر وہ لمبی چوڑی دعا مانگتا ہے‘‘۔ (حم السجدہ :51) ’’انسان خیر طلب کرنے سے کبھی نہیں اکتاتا اور اگر اسے کوئی شر پہنچ جائے تو وہ مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے‘‘۔ (حم السجدہ: 49)

یاس اور قنوط کے معنی ہیں: نا امیدی، یہ دونوں کلمات معنوی اعتبار سے مترادف ہیں، لیکن کیفیت یا گراف کے اعتبار سے قنوط کے مقابلے میں ’’یاس‘‘ میں نا امیدی کے معنی زیادہ ہیں، قنوط کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اپنے ربّ کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ مایوس ہوتے ہیں‘‘ (الحجر: 56) اور یاس کے بارے میں فرمایا: ’’یعقوب نے کہا: میں اپنی پریشانی اور غم کی شکایت صرف اللہ سے کرتا ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے ان باتوں کا علم ہے جن کا تم کو علم نہیں ہے، اے میرے بیٹو! جائو یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگائو اور اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوتے ہیں‘‘۔ (یوسف: 86-87) سیدنا یعقوبؑ نے یوسفؑ کی گمشدگی کے حوالے سے مایوسی کے ظاہری اسباب کے باوجود اللہ کی ذات سے اپنی آس کو نہیں توڑا اور اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ یوسف اور اُس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، کیونکہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کافروں کا شیوہ ہے۔ (جاری ہے)