پاکستان مملکت خداداد ہے، قدرت کا انمول تحفہ ہے، وسائل سے مالامال ہے مگر المیہ یہ ہے کہ قدرت کے اس انمول تحفے پر دولت کے پجاری قابض ہو گئے ہیں جو قدرت کے مقاصد کی نگرانی کرنے کے بجائے شیطان کی جانشینی پر فخر کرتے ہیں، اس پس منظر میں ہمیں چنگیز خان کا ایک مکالمہ یاد آرہا ہے، وہ بستر مرگ پر پڑا تھا تمام درباری اس کے اردگرد براجمان تھے، چنگیز خان نے کہا آسمانی باپ کا بلاوا آگیا ہے وقت تھوڑا ہے تم لوگ وہ سوال کر سکتے ہو جسے پوچھتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ایک درباری نے کہا آپ آسمانی باپ کے حضور پیش ہونے جارہے ہیں، اور یہ بات یقینی ہے کہ آسمانی باپ کی مخلوق کا جو قتل عام کرتے رہے ہو اس کا حساب دینا ہو گا، سوال یہ ہے کہ اس حساب کتاب میں آپ کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، چنگیز خان نے کہا کہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو قابل گرفت ہو موت اور زندگی آسمانی باپ کے اختیار میں ہے روزِ محشر اصل حساب اپنے اختیارات کو بروئے کار لانے سے متعلق ہو گا، تم سب اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ میں نے کسی نااہل شخص کو اہم عہدے پر فائز نہیں کیا کیونکہ آسمانی باپ ہر اس شخص کو ناپسند کرتا ہے جو اپنے عہدے اور اختیار کا غلط استعمال کرتا ہے، اہل شخص اپنے اختیارات کا غلط استعمال کبھی نہیں کرتا۔
یہاں مسٹر چرچل کا ذکر بھی بے محل نہیں ہوگا، انگریز حکومت نے برصغیر سے جانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ انڈیا کو کم از کم پچاس سال کے بعد آزاد کرنا چاہیے کہ یہی یہاں کے لوگوں کے لیے بہتر ہو گا۔ آزادی کے بعد جاگیردار طبقہ ہی برسر اقتدار آئے گا جو عوام سے جینے کا حق بھی چھین لے گا، کیونکہ ان کی حکمرانی کا مقصد عوام سے ٹیکس کے نام پر دولت کا حصول ہوگا، ان کی کوشش ہوگی کہ سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ مگر ان کی بات پر کوئی توجہ نہ دی گئی بلکہ برصغیر کو ایک سال پہلے ہی آزاد کر دیا گیا، پروگرام کے مطابق 1948میں برصغیر کو آزاد کرنا تھا مگر 1947ہی میں اسے آزاد کر دیا گیا۔
پاکستان تو معرض وجود میں آگیا مگر برصغیر کی ملت مسلمہ کی سماجیات اور معاشیات تباہ ہو گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برصغیر کو 1948 میں آزاد کرنا تھا 1947 میں کیوں آزاد کر دیا گیا، کہتے ہیں اہل یہود جب بھی کوئی منصوبہ سازی کرتے ہیں اس کے نتائج 100سال بعد برآمد ہوتے ہیں، پاکستان بھی اپنی سنچری کی طرف بڑی تیزی سے گامزن ہے اور اس کے نتائج بھی برآمد ہونے لگے ہیں، مسٹر چرچل کے تجزیے کے مطابق پاکستانی حکمران ہر چیز پہ ٹیکس لگا کر عوام کی سماجیات اور معاشیات کا جنازہ نکال رہے ہیں، شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جہاں ٹی وی اور ایزی لوڈ پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہو اور یہ ستم اس لیے ہو رہا ہے تاکہ عوام دال روٹی کے چکر میں پھنسے رہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہ ہو کہ وہ حکومتی زیادتیوں پر احتجاج کر سکیں اور اب بجلی کے بلوں میں ریڈیو ٹیکس بھی شامل کر دیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نگران وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں اگر ڈار صاحب نے عوام کی جیب کاٹنے کا کوئی نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا تو وہ نگران وزیر اعظم بنا دیے جائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ ریڈیو فیس بھی ان کی تجویز ہے۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا فرمان ہے کہ ہم عوام پر ٹیکس لگانا نہیں چاہتے مگر مجبوری یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے احکامات ماننے پر مجبور ہیں، چلیے صاحب مان لیا کہ عوام کو دی جانے والی سبسڈی آئی ایم ایف کے معاہدے کے خلاف ہے، مگر آئی ایم ایف نے ایزی لوڈ ٹی وی اور ریڈیو پر فیس لگانے کی ہدایت تو نہیں کی ہے اگر حکمران عوام کو سبسڈی دینا چاہیں تو آئی ایم ایف کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا مثلاً ایزی لوڈ اور اس طرح کے دیگر ٹیکس ختم کیے جاسکتے ہیں، مگر یہ ظالم حکمران اب ریڈیو فیس بھی وصول کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔
ہمارا دانشور طبقہ بھارت کی بہت تعریف کرتا ہے کیونکہ وہاں کبھی مارشل لا نہیں لگا حالانکہ سبھی اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ بھارتی سیاستدانوں نے کبھی فوج کو اقتدار میں آنے کی دعوت نہیں دی، آنجہانی اندرا گاندھی نے اپنے دور حکومت میں ایمرجنسی نافذ کی تھی مگر وہاں کی عدلیہ نے اسے تسلیم نہیں کیا، وہ جب تک اقتدار سے باہر رہیں پولیس سے چھپتی رہیں جبکہ ہماری عدلیہ کہتی ہے جس دروازے سے بھیک ملتی ہے اس پر ہاتھ سے نہیں پلکوں سے دستک دینی چاہیے، ساری خرابیاں اختیارات سے تجاوز کرنے کا نتیجہ ہوتی ہیں اورعام آدمی سماجیات اور معاشیات کی گرفت میں آجاتا ہے یہ گرفت اتنی سخت اور شدید ہوتی ہے کہ آدمی نا چاہتے ہوئے بھی برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔
اسلام کا مطالعہ بتایا ہے کہ حکمرانی کرنے کے لیے چرواہے کی عادات و خصائل سے روشناس ہونا ضروری ہوتا ہے، جہاز چلانے والے کبھی اچھے حکمران ثابت نہیں ہوتے، اچھی حکمرانی کے لیے بھیڑ بکریاں چرانا ضروری ہوتا ہے، دنیا میں جتنے بھی اچھے حکمران آئے ہیں انہوں نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں بکریاں ضرور چرائی ہیں کیونکہ جو شخص بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو اپنے اشاروں پر چلاتا ہے وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے اشاروں پر چلانا جانتا ہے۔
وطن عزیز کی حکومتیں اسی لیے ناکام اور عوام دشمن ثابت ہوتی رہی ہیں کیونکہ حکمرانوں کو بکریوں کے ریوڑ کو قابو میں رکھنے کا ہنر نہیں آتا اور ملک بھیڑ چال کی نذر ہو جاتا ہے، یوں بھی حکمران ملک چلانے کے بجائے اپنا گھر چلاتے رہے ہیں۔