قصہ یوں ہے کہ ایک خاتون ائر لائن کی انتظار گاہ میں اپنے جہاز کی پرواز کا انتظار فرما رہی تھیں۔ جہاز کی پرواز میں کسی فنی خرابی کی وجہ سے کچھ تاخیر تھی۔ وقت گزارنے کے لیے انہوں نے اپنے موبائل فون کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ بالکل برابر کی نشست پر ایک اور صاحب بھی کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔ موبائل فون پر پسندیدہ پروگرام دیکھتے رہنے کے باوجود بھی جب انتظار طویل محسوس ہونے لگا تو وہ اٹھ کر ٹک شاپ تک گئیں اور بسکٹ کا ایک ڈبہ خرید کر واپس اپنی نشست پر آ کر بیٹھ گئیں اور دوبارہ موبائل فون میں من پسند پروگرام سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیا۔ اسی دوران جب انہوں نے بسکٹ اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو انہیں احساس ہوا کہ برابر والی نشست پر بیٹھے صاحب بھی اسی بسکٹ کے ڈبے سے بسکٹ اٹھا رہے ہیں۔ اس بد اخلاقی پر ان کو غصہ تو بہت آیا لیکن فوری طور پر انہوں نے اپنے ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اب تقریباً ہر بار جب بھی وہ بسکٹ کے لیے ہاتھ بڑھاتیں، برابر کی نشست پر بیٹھے صاحب بھی اسی ڈبے کی جانب ہاتھ بڑھا کر ایک بسکٹ اٹھا لیا کرتے۔ خاتون دل ہی دل میں کڑھتی اور جلتی رہیں لیکن پھر بھی نہایت ضبط سے کام لیتی رہیں۔ آخر میں ڈبے کے اندر صرف ایک ہی بسکٹ رہ گیا تو خاتون نے سوچا کہ دیکھوں کہ اس آخری بسکٹ کو صاحب اٹھا لیتے ہیں یا میرا لحاظ کر لیتے ہیں۔ اسی دوران صاحب نے بسکٹ کی جانب ہاتھ بڑھا کر اس کے دو حصے کیے لیے اور ایک حصہ اٹھا کر دوسرا خاتون کے لیے چھوڑ دیا۔ اب انتہا ہو چکی تھی۔ خاتون کا پارہ بہت چڑھ چکا تھا۔ جہاز کے پلیٹ فارم سے لگ جانے کا اعلان بھی ہونے لگا تھا۔ وہ بہت غصے میں صاحب کی جانب دیکھتے، پاؤں پٹختے اور زیر لب بڑ بڑاتے ہوئے اٹھیں اور جہاز میں سوار ہو گئیں۔ سیٹ پر بیٹھ کر کچھ غصہ ٹھنڈا ہوا تو اپنا پرس کھولا، دیکھا کہ ان کے بسکٹ کا ڈبہ تو ان کے پرس میں ہی رکھا ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ برابر والی نشست پر بیٹھے صاحب کے بسکٹ کے ڈبے میں سے بسکٹ نکال نکال کر کھاتی رہیں۔ واہ کیا ظرف والے صاحب تھے کہ انہوں نے ایک مرتبہ بھی برا نہیں منایا بلکہ آخری بسکٹ کے بھی دو برابر برابر کے ٹکڑے کرکے آدھا خود لیا اور آدھا اُن کے لیے چھوڑ دیا۔
یہ بات 1992 کی ہے جب میرا ٹرانسفر کراچی سے اسلام آباد ہوا تھا۔ میں اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے ہمراہ ہی لے گیا تھا۔ اسلام آباد منتقل ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ بالکل اگلی گلی میں ایک شور شرابہ بلند ہو۔ کوئی شخص کسی گھر میں داخل ہو کر خاتونِ خانہ سمیت چار بچوں کے گلے کاٹ گیا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ گلے کاٹنے والا خاتون کا شوہر اور بچوں کا باپ تھا اور یہ سب محض بیوی پر شک گزرنے کی بنا پر ہوا تھا۔
اس قسم کے بے شمار واقعات کے پیچھے زیادہ تر اسی قسم کی بد گمانیاں ہی کار فرماں نظر آتی ہیں۔ پورے پورے گھر والوں کے گلے کاٹ دینا، کسی خاتون کا بچوں سمیت کسی نہر میں چھلانگ لگا کر خود بھی مر جانا اور بچوں کو بھی ختم کر لینا۔ بڑے بڑے خاندانی جھگڑوں کا برپا ہو جانا، اپنے ہی جسم کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا لینا، کسی کے جسم پر تیزاب پھینک دینا یا بلندی سے چھلانگ لگا کر اپنی ہی زندگی کو ختم کر لینے واقعات 90 فی صد سے زیادہ کسی نہ کسی بدگمانی کا نتیجہ ہی ہوا کرتے ہیں۔
غصے کی حالت میں لیے گئے فیصلے تقریباً سارے کے سارے ہی غلط ہوا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہ میرے پیارے نبیؐ نے فرمایا، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر تمہیں غصہ آرہا ہو اور تم کھڑے ہوئے ہو تو بیٹھ جاؤ، بیٹھے ہوئے ہو تو لیٹ جاؤ، مطلب یہ ہے کہ اپنی حالت کو بدل لینے سے توجہ بٹ جایا کرتی ہے اور انسان کو کچھ اچھا سوچنے کا وقت مل جاتا ہے۔ میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتا ہوں۔ میرا ایک اچھا اسسٹنٹ تھا لیکن وہ دفتر تاخیر سے آنے کا اتنا عادی تھا کہ شاید ہی کسی دن وقت پر آیا ہو۔ مسلسل سمجھانے کے باوجود وہ اپنی عادت نہیں بدل سکا۔ ایک دن اس کی اس عادت کی وجہ سے مجھے زیادہ ہی غصہ آ گیا اور میں نے اس کی حاضری رجسٹر پر لگے کئی ’’پی‘‘ کو ’’اے‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ انگریزی کے ’’پی‘‘ کو ’’اے‘‘ بنانا ویسے بھی آسان ہوتا ہے۔ اس کی حاضریوں کو غیر حاضری میں بدل دینے کے بعد جب اس رجسٹر کو داخل ِ دفتر کرنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب غیر حاضریاں ایک اور ملتے جلتے نام والے اسسٹنٹ کی کر دی گئیں ہیں جو اپنی ڈیوٹی پر ہمیشہ وقت پر آیا کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر غصے کا سارا طوفان سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا کیونکہ اب اسے درست کرنے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے کا وقت شروع ہو چکا تھا۔
جن انتہائی اقدامات اٹھائے جانے کا ذکر کیا گیا ہے یہ سارے اقدامات شدید غصے میں ہی اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ شدید غصہ آتا ہی بد گمانیوں کے نتیجے میں ہے۔ یہ بد گمانیاں مسلسل ایک ابال اٹھاتی رہتی ہیں اور آخر ِ کار غصہ کرنے والا حقیقتاً اس حد تک پاگل ہو جاتا ہے کہ مرنے مارنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ اگر کوئی بھی فرد اپنی اس کیفیت کو محسوس کرکے اپنی حالت تبدیل کرلے، کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے، ٹہلنے لگے یا ٹھنڈا پانی پی لے تو اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ وہ لازماً اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہو کر انتہائی قدم اٹھانے سے باز رہ سکے۔ مجھ سمیت ہم میں سے ہر فرد کو کسی بھی آخری قدم اٹھانے سے قبل اپنی کیفیت کا جائزہ ضرور لینا چاہیے، بد گنانیوں سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ بدگمانیوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔