پاک چائنا گوادر یونیورسٹی، لاہور

904

یہ یہی چند ماہ پہلے کی با ت ہے۔ اسلام آباد میں ایک تقریب میں وزیر تعلیم جناب رانا تنویر صاحب خطاب فرما رہے تھے کہ ہم نے مزید یونیورسٹیوں کی اجازت نہیں دینی، یہ کاروبار بن چکا ہے اور غیر ضروری طور پر پھیل چکا ہے۔ اور پھر ہی چند ہی ماہ بعد ایک دن میں، بغیر کسی غورو خوض کے ہماری پارلیمان نے مزید 26 یونیورسٹیاں بنانے کا بل پاس کر دیا۔ جسے یہ حسن ظن ہے کہ اس قانون سازی کے پیچھے صرف تعلیم سے محبت ہے اور مختلف پارلیمنٹیرین حضرات کا کوئی مالی مفاد وابستہ نہیں، وہ بھولا بادشاہ اس وقت سات براعظموں کا خوش قسمت ترین انسان ہے۔ عجلت میں قانون سازی ایک الگ موضوع ہے۔ بغیر کسی بحث کے کھڑے کھڑے چپکے سے 26 (یقینا منظور نظر) لوگوں کو یونیورسٹیاں قائم کرنے کی اجازت دینا بھی الگ موضوع ہے لیکن سردست جس نکتے پر بات کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی اگر قائم کی جا رہی تھی تو اسے گوادر، لورا لائی، ژوب، لسبیلہ، نصیر آباد، کوئٹہ، خضدار، چمن، تربت، نوشکی، قلعہ سیف اللہ، مستونگ، پشین، پسنی، دالبندین، جھل مگسی، چاغی وغیرہ جیسے شہروں کے بجائے لاہور میں قائم کرنے کے پیچھے کیا حکمت ہے؟ مسلم لیگ ن بنیادی طور پر لاہور اور جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے۔ اس کے مفادات جی ٹی روڈ کے اطراف ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ پنجاب کے اندر بھی سہولتوں کا مرکز صرف اور صرف لاہور کو بنا دیا گیا ہے۔ میانوالی سے لاہور تک ہائی کورٹ کا کوئی بنچ نہیں بن سکا۔ انصاف لینے کا بہت شوق ہے تو میانوالی، خوشاب اور سرگودھا سے نکلو اور گھنٹوں کا سفر کر کے لاہور پہنچو، آگے آپ کی قسمت۔ اسپتالوں میں جائیں تو یہ بات اب لطیفے کی طرح مشہور ہو چکی ہے کہ ڈاکٹروں نے مزے سے یہی کہہ دینا ہے کہ مریض کو لاہور لے جائو۔
لاہور اور اسلام آباد میں پہلے ہی یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ ایک ایک گلی میں اتنی یونیورسٹیاں ہیں جتنی پورے بلوچستان میں نہیں۔ اس کے باوجود اگر کسی نوازنا تھا یا کسی کے ہاتھوں قانون ساز نوازے جا چکے تھے تو کیا کوئی اور نام نہیں رکھا جا سکتا تھا؟ یہ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی کا لاہور میں کیا کام؟ یہ یونیورسٹی تو گوادر ہی میں جچتی تھی یا پھر بلوچستان ہی کے کسی اور شہر میں۔ قانون سازی کے باب میں یہ بنیادی اصول ہے کہ قانون سوچ سمجھ کر بنانا چاہیے اور بنانے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز کی رائے لینی چاہیے۔ اس کے بعد پارلیمان میں اس پر آزادانہ بحث ہونی چاہیے۔ یہ کیسی قانون سازی ہے کہ ایک ہی دن میں بل لائے گئے اور پاس کرا لیے گئے۔ نئی یونیورسٹیوں کی اگر ضرورت تھی تو اس پر باقاعدہ بات ہونی چاہیے تھی کہ کن کن علاقوں میں پہلے کتنی یونیورسٹیاں موجود ہیں اور اب مزید کن علاقوں کو کتنی یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے۔ جب میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں قانون کا طالب علم تھا، ہمارے کچھ ہم جماعتوں کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ ایک بار عید کے بعد امتحانات رکھے گئے اور یہ دوست گھروں کو نہ جا سکے۔ کیونکہ یہ دور کا سفر تھا اور آنے جانے میں وقت بہت لگتا اور عید کے فوری بعد امتحانات تھے۔ اس لیے انہوں نے عید ہاسٹل ہی میں کی۔ یہ سوال تب سے میرے ہمراہ ہے کہ ان دوستوں کے لیے ان کے اپنے شہروں میں یونیورسٹیاں کیوں نہیں بن سکتیں۔ اس حماقت میں کون سی حکمت ہے کہ لاہور اسلام آباد میں گھروں میں یونیورسٹیاں کھل جائیں اور بلوچستان اور سابق فاٹا کو محروم رکھا جائے؟
مرحوم ملک معراج خالد سے ایک بار میں نے سوال کیا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل کیا ہے۔ کہنے لگے: ایک ہی حل ہے، اور بہت سادہ سا حل ہے، وہاں تعلیم عام کر دیں۔ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک، علمی انقلاب برپا کر دیں۔ میں نے کہا اس سے کیا ہوگا؟ کہنے لگے: اس سے وہ جہالت ختم ہوجائے گی، جو ان پر مسلط کی گئی ہے۔ جہالت ختم ہو گی تو شعور آ ئے گا، شعور آئے گا تو استحصال ختم ہو جائے گا۔ شعور کے ساتھ جب تعلیم بھی ہو گی تو بے بسی بھی ختم ہو جائے گی، کوئی استحصال کر ہی نہیں پائے گا۔ جب استحصال ممکن نہیں رہے گا تو شراکت اقتدار کا احساس آئے گا، محرومی کم ہو گی۔ جیسے جیسے یہ سفر آگے بڑھے گا، مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ شاید یہ وہ چیز ہے جو بلوچستان کا وڈیرہ اور نواب بھی نہیں چاہتا۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں، پارلیمان میں بل پاس ہو گیا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک رکن پارلیمان بھی اس نا انصافی پر نہیں بولا۔ یہ نواب اور وڈیرے اپنے بچوں کو بیرون ملک سے تعلیم دلاتے ہیں لیکن اپنے ہاں تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ان کی نوابی اور وڈیرہ شاہی انگریزوں کی دی گئی نو آبادیاتی یادگار ہے جو عوام کو غلام بنا کر رکھنے کا ایک نیا حربہ تھا تا کہ فرنگی راج کے کارندے نوابی کے نام پر رعایا کو دبا کر رکھیں۔ قومی سیاسی جماعتیں ویسے ہی بلوچستان سے لاتعلق ہیں۔ جس پورے صوبے کے پاس قومی اسمبلی کی نشستیں لاہور اور فیصل آباد سے بھی کم ہوں وہاں کے مسائل پر یہ بات کر کے وقت کیوں ضائع کریں۔ جے یو آئی کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے بظاہر قانون سازی کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ جیسے مرضی قانون بن جائے یہ اس مرحلے میں لاتعلق رہتی ہے۔ یہ عدم توجہ کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور انگریزی زبان سے لا علمی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ نہ انہیں انگریزی آتی ہے نہ یہ قانون کا مسودہ پڑھتے ہیں اور نہ اس کے قائدین نے کبھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ قانون کا مسودہ اردو میں تیار کیا جائے۔ ایک سینیٹر مشتاق احمد ہیں جنہوں نے اس پر آواز اٹھائی ہے۔ پورے ایوان میں سناٹا ہے۔
پی ڈی ایم کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جمہوریت اکثریت کی آمریت کا نام نہیں۔ یہی کام عمران خان کرتے تھے۔ تیرہ جنوری 2022 کو انہوں نے پارلیمان سے 16 بل پاس کرائے، 10 جون 2021 کو قومی اسمبلی سے 21 بل پاس ہوئے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ایک دن میں 33 بل پاس کروائے گئے۔ عارف علوی صاحب کے جاری کردہ دندان شکن صدارتی آرڈی ننسوں کی فہرست الگ سے ہے۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی میں فرق کیا رہا؟ وہی جو کفن چور اور اس کے باپ میں تھا؟ مسلم لیگ کو جی ٹی روڈ سے نکلنا ہو گا۔ اسے قومی جماعت بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بلوچستان اس وقت غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان کے خلاف پراکسی کا میدان بھی یہی ہے۔ ایسے میں حکمت اور بصیرت کی ضرورت ہے تاکہ قومی حدت کو فروغ ملے۔ فالٹ لائنز بھرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں نمایاں کرنا بڑا ظلم ہے۔ پی ڈی ایم کو سمجھنا چاہیے کہ اقتدار مال غنیمت نہیں ہوتا، امانت ہوتی ہے۔ (بشکریہ: 92نیوز)