آدمی بستر سے لگ جائے تو مطالعے ہی میں دل لگتا ہے، ان دنوں ہم بھی بستر سے لگ کر مطالعے میں لگے ہوئے ہیں، مرزا غالب اور حضرتِ داغ کو پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ ہمارے سیاستدانوں اور شاعروں میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ دونوں ہی فاقہ مستی میں مست رہتے ہیں، مرزا غالب بھی فاقہ مست تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ فاقہ مستی ایک دن رنگ ضرور لاتی ہے۔ کاش حکمران طبقے کو بھی احساس ہوتا کہ ان کی فاقہ مستی قوم کو فاقہ کشی میں مبتلا کر دے گی، حضرتِ داغ فاقہ مست تھے مگر اپنی فاقہ مستی پر اظہار ندامت کرنے کے بجائے کہا کرتے تھے کہ داغ فاقہ مست بن بیٹھے ہیں کیونکہ مانگ کر کھانے کا مزا ہی کچھ اور ہے اور مانگنے کے ہزار طریقے ہیں اور ان کا لطف بھی الگ الگ ہے۔
وطن عزیز کا حکمران طبقہ حضرتِ داغ کی طرح مانگ کر کھانے کے ہزار طریقے جانتا ہے جب بھی منہ کھولتا ہے کہتا ہے کہ عوام کی حالت زار انہیں بے چین رکھتی ہے، نوجوانوں کا مقدر کھیل کے میدان اور تعلیمی ادارے ہیں اگر قوم نے انہیں دوبارہ حکمرانی کا حق دیا تو وہ قوم کا حق ادا کرنے میں خون کا آخری قطرہ تک بہانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور جلسہ گاہ تالیوں سے گونجنے لگتی ہے حالانکہ یہ موقع بغلیں بجانے کا ہوتا ہے یہ کیسی بد نصیبی ہے جو طبقہ سال ہا سال سے حکمرانی کر رہا ہے وہی قوم کی حالت زار پر زار و قطار رو رہا ہے اور کوئی یہ پوچھنا گوارا نہیں کرتا کہ پچاس ساٹھ برسوں کی حکمرانی میں کچھ نہیں کر سکے تو اب کیا کر لیں گے، سوائے اس کے کہ قوم کو غربت اور افلاس کی دلدل میں مزید دھنسا دیں۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ عوام کو دی جانے والی سبسڈی پر آئی ایم ایف کو اعتراض ہوتا ہے، اور حکومت اس اعتراض پر سرنگوں ہو جاتی ہے مگر نیپرا کو اربوں روپے سالانہ سبسڈی دی جاتی ہے اس پر آئی ایم ایف کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ سب سڈی بھی اس کی ناقص کارکردگی پر دی جاتی ہے، یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بجلی کے ٹیرف میں آئے دن ہونے والے اضافے کی بنیادی وجہ ’’کے‘‘ الیکٹرک بنیادی پلانٹس ہیں۔
امیر جماعت کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بجلی کے نرخ میں اضافے کو مسترد کر دیا ہے، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیرف میں اضافے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے کیونکہ حکومت کا یہ عمل مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہوگا، عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں، یہ اضافہ عوام کی پریشانیوں میں بھی اضافہ کر دے گا، انہوں نے حکومت سے استفسار کیا ہے کہ جاگیر داروں اور مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس کیوں نہیں لگایا جاتا، بڑے بڑے عہدوں پر فائز افراد کی سہولتوں کی سہولت کاری ختم کر دی جائے تو عوام کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے، مگر المیہ یہی ہے کہ سیاستدانوں نے حکمرانی کو ملکی وسائل ہڑپ کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ جب بھی عوام کے سامنے آتے ہیں مگر مچھ کے آنسو بہانے لگتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عوام ان کے قصوں میں بہہ جاتے ہیں۔
صدر ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں ایک خاتون نے ان کی کار کے نیچے آنے کوشش کی خاتون کو گرفت میں لے لیا گیا اور پوچھا گیا کہ وہ کار کے نیچے کیوں آنا چاہتی تھی اس نے بتایا کہ اس کا شوہر ایک سرکاری آفیسر تھا اس نے مکان بنانے کے لیے ہائوس بلڈنگ فائنانس سے ادھار لیا تھا ہم ہر مہینے قرضے کی قسط باقاعدگی سے ادا کرتے رہے بقایا رقم پچاس ہزار روپے بچتی ہے اس دوران میرے شوہر پر ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ وفات پا گئے، شوہر کی وفات کے بعد ذریعہ آمدن اتنا کم ہو گیا کہ گھر چلانا بھی دشوار ہو گیا، ستم بالائے ستم یہ کہ اب گھر بھی چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے شوہر نے مکان بنانے کے لیے ہائوس بلڈنگ فنانس سے جو قرض لیا تھا اس کے ادا کرنے سے پہلے اللہ کا بلاوا آگیا، اب بقایا رقم جو کہ پچاس ہزار روپے ہے اس کی ادائیگی کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی جارہی ہے کہ رقم ادا نہ کی گئی تو مکان نیلام کر دیا جائے گا۔ صدر ضیاء الحق نے کہا آپ بے فکر ہو جائیں اب کوئی بھی رقم کا تقاضا نہیں کرے گا۔ انہوں نے متعلقہ ادارے سے کہا کہ بیوہ کی بقایا رقم معاف کر دی جائے، جواب موصول ہوا کہ واجب الادا رقم معاف نہیں کی جاسکتی، صدر ضیاء الحق نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا تو کہا گیا کہ بیوہ کو یہ رقم بہر صورت ادا کرنا ہوگی بصورت دیگر مکان نیلام کر کے واجب الادا رقم وصول کی جائے گی، سرمایا داروں اور سیاستدانوں کے اربوں روپے معاف کر دیے جاتے ہیں تو ایک بیوہ کو پچاس ہزار روپے کیوں معاف نہیں کیے جاسکتے، کہا گیا کہ یہ قانونی معاملہ ہے اور قانون پر عملدرآمد ضروری ہوتا ہے دیگر ماہرین سے مشورہ طلب کیا گیا تو بتایا گیا کہ آپ اپنی صوابدید پر پچاس ہزار روپے معاف کر سکتے ہیں، اور صدر ضیاء الحق نے اپنی صوابدید پر قومی خزانے سے پچاس ہزار روپے نکال کر قرضے کی رقم ادا کر دی، گویا قانون صرف عوام کے لیے ہے، بااختیار اور صاحب اختیار کے لیے ہر سہولت موجود ہے، اس تناظر میں یہ سوچنا غلط نہیں ہو گا کہ قیام پاکستان کا مقصد ایک ایسے خطہ اراضی کا حصول تھا جہاں پر حکمرانی کی جائے۔