آخری حصہ
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اچھے ادارے نہیں ہیں، ان کے لیے ٹرانسپورٹ نہیں ہے، ان کے لیے ملازمتیں نہیں ہیں بلکہ اس میں سب سے بڑا تضاد ہمارے حکمران طبقے کا ہے اور اس نام نہاد ترقی پسند طبقے کا جو اس مخلوط نظام کا وکیل ہے۔ اس تضاد کی درجنوں مثالیں ہیں صرف چند پیش خدمت ہیں۔ ہمارے ساتھ جدہ میں ایک صحافی کام کرتے تھے، ایک دن غصے میں نظر آئے، کہنے لگے کہ بیٹے پر غصہ آرہا ہے، وہ اسلامی جمعیت طلبہ والوں میں بیٹھنے اٹھنے لگا ہے۔ ہم تو رہے جماعتی… ہم نے کہا تو کیا ہوگیا بھائی اچھے لوگ ہیں جماعتی۔ اور غصے میں آگئے۔ کہنے لگے کہ رہنے دو تم لوگوں نے کیا کرلیا۔ ہماری یہ گفتگو جنید سلیم بھی سن رہے تھے۔ انہوں نے اشارے سے منع کیا کہ وہ بحث ختم کردیں۔ پھر دو تین روز بعد جنید سلیم گویا ہوئے ان صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ یار آج کل تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے لوگ کیا کریں۔ وہ دو روز قبل کی تکلیف جمعیت سے بھول کے اور جذباتی ہو کر کہنے لگے کہ میں نے تو اپنی بیٹیوں سے کہہ دیا ہے کہ اسلامی جمعیت طالبات کے ساتھ رہا کرو۔ وہ بہترین لوگ ہیں۔ اور یہیں جنید سلیم نے ان کی گرفت کی کہ بھائی لڑکے خراب ہیں اور لڑکیوں کو جمعیت ہی میں بھیج رہے ہیں۔ نصب العین تو ایک ہی ہے۔ بس یہاں رک کر سوچیں مغربی نظام تعلیم اور مخلوط نظام تعلیم کا نصب العین تو ایک ہے۔ وہ تو اثر دکھا کر رہے گا۔ ہمارے ہی دور کے اسلامی جمعیت طلبہ کے مخالف ایک صاحب کوئی تیس برس بعد پریشان حال ملے، ان سے گفتگو میں پتا چلا کہ بیٹی کے رشتے کے لیے پریشان ہیں ہم سے کھل کر کہا کہ کوئی جماعتی لڑکا ہو تو بتائو۔ اور ہم سناٹے میں… جس جمعیت کو وہ امریکا کی ایجنٹ کہتے اور مودودیؒ کو گالیاں دیتے تھے آج اس کا صالح نوجوان اپنی بیٹی کے لیے چاہیے۔ اور عثمان پبلک اسکول تو ایسا ہے کہ جب ہم نے اپنی بیٹیوں کو اس میں داخل کرایا تو کہا گیا کہ کیا ملائوں کے ادارے میں بچیوں کو پھینک دیا ہے اور صرف دس پندرہ برس بعد یہ کہنے والے ترقی پسند ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کسی طرح بیٹی کا داخلہ عثمان میں کرادو… اور ہم کہتے ہیں کہ بھائی وہاں سفارش نہیں چلتی۔ ایسے متضاد رویوں والے بہت لوگ ملتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ جیسا معاشرہ ہم تشکیل دے رہے ہیں نتائج تو ویسے ہی آئیں گے۔ اگر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مخلوط تعلیم نہ ہوتی، اتنی بڑی یونیورسٹی میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ حصے بن جاتے تو ایسے واقعات سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ ویسے تو لاہور کے دارالامان کا واقعہ سب کے سامنے ہے کہ عورت ہی عورتوں کو بیچ رہی تھیں لیکن اسباب قوم سے نہ بتائے جائیں۔ ہوسکتا ہے ہمارے ان خیالات سے کوئی ترقی پسند مسلمان ناراض ہوجائے لیکن حقیقت تو یہی ہے جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ کچھ ہے ہی نہیں تو ہم کیا کریں۔ جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں وہ یہ سارے کام کرتے ہیں تو ہم اقتدار میں کسے لاتے ہیں۔ ان پارٹیوں کو جو مغرب کو مغربی نظام کو، اس کی ترقی کو اس کے مخلوط معاشرے کو ترقی کا راستہ سمجھتے ہیں۔ نظام تعلیم، نظام معیشت، نظام انصاف نظام حکومت سب مغرب کا… اور نتیجہ ہمیں مشرق کا چاہیے۔ (ایں چہ بوالعیجی است)