میڈیا خبروں کی دھول اُڑاتا ہے بعض دفعہ یہ دھول محض دھول ہوتی ہے۔ بے شمار معاملات میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں لیکن بے شمار دفعہ ہی حقائق وہ نہیں ہوتے جو دکھائے، سنائے اور سمجھائے جارہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ تو آنکھوں دیکھا بھی مکمل سچ نہیں ہوتا۔ آدھے سچ کو لے کر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یوں تو ایسا رویہ کسی بھی معاملہ میں نہ درست ہے نہ دیانت دارانہ ہے، لیکن جہاں اس کی زد کسی مادر علمی پر پڑے وہاں پڑھنے والے طلبہ و طالبات پر پڑے تو وہ بہت زیادہ حساس معاملہ ہوجاتا ہے خاص طور سے طالبات کی عزت و ناموس کے بارے میں غیر محتاط طریقے سے بات کی جائے تو سمجھ لیں کہ والدین کے دلوں پر ہاتھ مارا جارہا ہے، ان کی لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں منفی سوچ اور رویہ پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے بارے میں میڈیا پر زور شور سے جو کچھ بتایا جارہا ہے اور اینکر حضرات اپنے تجزیے اور تبصرے پیش کررہے ہیں وہ مصدقہ نہیں ابھی اس بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔ کوئی طالبات کی ویڈیو کی تعداد چار سو بتا رہا ہے اور کوئی چار ہزار یہ بالکل مناسب نہیں۔ آخر کیوں نہیں سوچا جاتا کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات کے والدین اور خاندان والوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔
تحقیقات ہونی چاہئیں اور بالکل ہونی چاہئیں۔ لیکن دھول اُڑا کر طالبات کو بدنام کریں اور نہ ہی یونیورسٹی کو، جس معاملے پر انتہائی فکر مندی کے ساتھ تحقیق کی ضرورت ہے وہ منشیات کا معاملہ ہے، ویڈیوز کا سرا بھی اسی سے جا کر ملتا ہے۔
نوجوان نسل خاص طور سے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں ہر طرح کے نشے کا استعمال ہورہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی مں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں، پھر اسی منشیات کا عادی بنا کر طلبہ و طالبات کو غلط کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ محکمہ پولیس خود منشیات فروشی میں ملوث ہے، وہ منشیات فروشوں کی سرپرستی کرتے ہیں، ان لوگوں کو سیاسی اثر رسوخ والی شخصیات کی بھی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ ان کی وجہ سے بعض دفعہ پولیس کے ذمے دار اہلکار چاہ کر بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ گئی۔ منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی ضمانت پر اپنی رہائی کا بندوبست رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ان اسمگلرز کا نیٹ ورک کام کررہا ہے۔ جو منشیات کی دستیابی کو آسان اور باسہولت بناتا ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں جنرل اسٹورز، کینٹین، لانڈری ہاسٹل کے وارڈن اور سیکورٹی گارڈز کے ذریعے ہر طرح کی منشیات فراہم کی جاتی ہے۔ آج کل تو فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کے ذرائع بھی منشیات کی ترسیل میں سہولت فراہم کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق منشیات کے عادی افراد میں 78 فی صد مرد اور 22 فی صد خواتین ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق منشیات استعمال کرنے والے افراد کی اوسط عمر 22 سال کی تشویشناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ نوجوان جب نشے میں مبتلا ہوتے ہیں تو معاشرہ تباہی کی طرف تیزی سے سفر کرتا ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد مراعات یافتہ طبقے سے یا انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب متوسط طبقے کی لڑکیاں بھی اس کا شکار ہورہی ہیں اور ان میں بڑی تعداد کم عمر لڑکیوں کی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں منشیات فروشی اور غیر اخلاقی سرگرمیاں انتہائی المناک ہیں۔ لیکن میڈیا پر یہ خبریں جس طرح رپورٹ ہورہی ہیں یہ نامناسب ہیں۔ لڑکیوں کی عزت و آبرو اور والدین کے اطمینان کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا محتاط رویہ اختیار کرے، حکومت تعلیمی اداروں کو پابند کرے کہ وہ اداروں میں منشیات کو کسی صورت بھی نہ پہنچنے دے۔ ایک اہم نکتہ مخلوط ذریعہ تعلیم ہے۔ خواتین کے لیے ہر شہر میں علٰیحدہ یونیورسٹی قائم کی جائے۔ اکتوبر 2019ء میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کا ڈرگ ٹیسٹ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اس کا اطلاق نہیں ہوسکا۔ والدین اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ حکومت صرف طلبہ کو نشانہ بنانے کے بجائے منشیات کے اسمگلرز کے خلاف کارروائی کرے۔ یہی صورت حال آج بھی ہے۔ دنیا بھر میں ڈرگ سپلائی روکنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں تا کہ منشیات صارف تک نہ پہنچے لیکن ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہائی جاتی ہے۔ منشیات اسمگلرز کو نہ صرف آزادی ہے بلکہ سزائوں سے محفوظ رکھنے کے لیے باقاعدہ اسمبلی میں بل پاس ہوتے ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد نے حال ہی میں بل کی نشاندہی کی کہ منشیات فروشوں کو سزائے موت نہ دینے کا بل پاس کیا گیا۔ حالانکہ یہ سزائیں نہ دینے ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات عام ہورہی ہے۔ دوچار منشیات اسمگلرز کو لٹکایا جاتا تو معاملہ اس حد تک نہ پہنچتا۔ اب تو اسمبلی میں ان کو سزا نہ دینے کا بل پاس کیا گیا ہے۔ وجہ سب سے بڑی یہی ہے کہ اسمبلی اراکین، سینیٹر اور حکومت کے کرتا دھرتا خود منشیات اسمگلرز کے گروہ کا حصہ ہیں، لہٰذا ان کے لیے حفاظت فراہم کرنے والے یہی ہیں۔ ان دونوں کے مالی مفادات آپس میں جڑے ہیں۔