یہ بیٹیوں کا معاملہ ہے، ذرا سنبھل کے

942

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سانحے کا ایک اور پہلو ہے جس پر توجہ دینے کا وقت آگیا ہے۔ بالفرض وہ سب کچھ صحیح ہے جو سوشل میڈیا پر رپورٹ ہوا ہے تو بھی اس مسئلے کا حل وہی ہے جس پر ملک کے سنجیدہ طبقات، جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور اسلامی جمعیت طالبات عرصہ دراز سے آواز اٹھاتے آرہے ہیں کہ

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

یعنی جب مخلوط تعلیم کو اپنے سینے سے لگایا جائے گا کہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تو اپنے ساتھ یہ مخلوط نظام ساری خرابیاں لائے گا۔ پاکستان تو ایک اسلامی ملک ہے، بھاری اکثریت مسلمان ہے، معاشرتی اقدار بھی بہت سی برائیوں کو روکتی ہیں لیکن حکمران طبقہ تسلسل سے ان اقدار ہی کو روندنے میں مصروف ہے۔ سرکاری شعبے میں خواتین یونیورسٹی جنرل ضیا الحق کے زمانے سے بنتے بنتے بالآخر بن ہی گئی، پھر کراچی میں بھی ایک یونیورسٹی بنی۔ اب بھی کئی بڑے کالج اور بڑی جگہ رکھنے والے ادارے موجود ہیں جن میں ہوم اکنامکس کالج اور دوسرا خاتون پاکستان کالج ہے اور اپوا کالج بھی۔ ان کے پاس جگہ بھی بہت بڑی ہے اور وہاں کئی شعبہ جات قائم ہوسکتے ہیں لیکن ہماری ترجیحات میں تعلیم ہی نہیں تو خواتین کی تعلیم کہاں اور خواتین کی جامعات کہاں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کا واقعہ جس بنیاد پر پھیلا ہے ابھی تو اس واقعے پر کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن مخلوط ادارہ بنا کر بنیاد تو فراہم کردی گئی۔ معاملہ صرف مخلوط تعلیم کا نہیں رہا بلکہ اب تو معاملات بہت آگے جاچکے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات میں منشیات کے استعمال کی خبریں عام ہیں ان کا معاملہ بھی اسلامیہ یونیورسٹی کی طرح ہے۔ ہم نے کئی پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور سرکاری اداروں کے بارے میں خود سروے کیا اور معلومات کیں تو پتا چلا کہ جو شرح اخبارات اور پولیس کے ذرائع بتاتے ہیں وہ حقیقت سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ اور دیگر اداروں تک پاکستان کا یہی چہرہ جارہا ہے کہ یہاں تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال حد سے بڑھ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے گزشتہ دنوں محمد علی جناح یونیورسٹی کے صدر اور وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر احمد شیخ سے ملاقات میں سوال کیا تو انہوں نے پورے ادارے میں اس حوالے سے ویجلنس کا ذکر کیا۔ باقاعدہ لوگ مقرر ہیں جو ان چیزوں پر نظر رکھتے ہیں، اساتذہ کو ہدایت ہے، طلبہ کی کیفیت میں کوئی تغیر دیکھیں یا ان کے چال ڈھال بات چیت سے کوئی خلاف عادت بات ظہور میں آرہی ہو تو فوری متعلقہ شعبے کو رپورٹ کریں۔ پھر ہم ان لوگوں سے باقاعدہ گفتگو کرتے ہیں ان کے مسائل سنتے ہیں۔ جامعہ سے نکالنا ہمارا کام نہیں ہوتا ہماری حتیٰ الامکان کوشش ہوتی ہے کہ طالبعلم، اس کے گھر والے اور کلاس فیلوز اسے راہ راست پر لے آئیں۔ یہ صرف ماجو کا قصہ نہیں ہے، ہم نے دوسرے ایسے اداروں کے طلبہ سے بھی سوال کیا ہے کہ کیا آپ کو چاروں طرف منشیات استعمال کرتے ہوئے طلبہ نظر آتے ہیں، سب کا جواب نفی میں ہوتا ہے۔ پولیس اور میڈیا تو یہ تعداد 30 فیصد بتاتے ہیں۔ کیا 30 فیصد کوئی کم تعداد ہوتی ہے۔ پھر تو ہر تیسرا فرد نشہ کرتا نظر آنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس میں بھی سوشل میڈیا اور مرکزی دھارے کے میڈیا کا بڑا دخل ہے اور پولیس کا بھی۔ لیکن ان سب کا کیا مفاد ہے۔ مفاد ان کا نہیں بلکہ منشیات کے خطرے کو دکھا کر بیرون ملک سے امداد وصول کرنے والوں کا مفاد ہے باقی سب استعمال ہوتے ہیں۔

سردست اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور زیر بحث ہے اور اس نہایت نازک مسئلے کو اچھالنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بہت سے لوگ محض اس لیے ردعمل میں شدت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ انہیں تعلیمی اداروں میں طالبات کے بارے میں ایسے واقعات بہت نفرت انگیز لگتے ہیں، لیکن جب تک اس معاملے پر عدالت میں کھل کر بات نہیں ہوتی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ کچھ چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عدالت یہ سب کچھ درست بھی قرار دے دیتی ہے تو بھی بہت زیادہ سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ پہلی بات جو بنیادی بات ہے پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس ملک کی بھاری اکثریت مسلمان ہے، کسی فقہ میں بھی خواتین اور مردوں کی مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں، ہمارا معاشرہ اب بھی خواتین کے لیے الگ شعبے، بیت الخلا، بسوں میں اور ٹرینوں میں الگ حصے جہاں قطار لگانی ہو وہاں بھی خواتین کے لیے الگ قطار وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے۔ لیکن ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کی اقدار کے برخلاف مخلوط نظام تعلیم کو پسند کیا بلکہ حکمرانوں نے اسے مسلط کیا۔ یہاں بھی میڈیا استعمال ہوا جس کے اشتہاروں، ڈراموں اور چکا چوند نے مخلوط تعلیم ہی کو ترقی کا واحد راستہ ثابت کردیا ہے۔ اب تو روایتی گھرانے بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کیا کریں بھائی اس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کیونکہ ان گمراہ حکمرانوں نے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا ہے۔ دوچار نام نہاد خواتین یونیورسٹیاں بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ جائیں اس میں پڑھیں۔ لیکن وہاں شعبے ہیں، اساتذہ ہیں نہ سہولتیں ہیں بعض کو تو چوپال بنا رکھا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مخلوط تعلیم کے ساتھ ساتھ مغربی طرز اور نصاب تعلیم بھی مسلط کردیا گیا۔ رفتہ رفتہ تمام اخلاقی تربیت کے مضامین نصاب سے غائب کردیے گئے۔ امہات المومنین، صحابہ کرام، غزوات اور مسلمان سائنسدانوں کے اسباق غائب کردیے گئے۔ یہاں تک کہ نظریہ پاکستان گم کردیا گیا۔ قائداعظم اور ان کے رفقا کو اجنبی بنادیا گیا ہے، سرسری ذکر ہے۔ پھر جو چیز غالب آرہی ہے وہ وہی مغربی تعلیم اور اس کے ساتھ آنے والا ایجنڈا ہے۔ اب اچھے خاصے دین دار گھرانے کی لڑکیاں بھی خواتین اور مردوں کی مساوات پر بات کرتی نظر آتی ہیں۔ آزادی نسواں کا نام لینے والے خواتین کے گروہوں کا ساتھ تو نہیں دیتیں لیکن ان کے نعروں اور مطالبات کو زیر بحث لاتی ہیں۔ لیکن، اگر، مگر اور پھر کیوں… ایسا کیوں کے سابقے لاحقے کے ساتھ باتیں ہوتی ہیں۔

تیسری چیز یہ ہے کہ معاشرے کو اس قدر مادہ پرست بنادیا گیا ہے کہ خواتین کی تعلیم کا مطلب ان کی ملازمت اور ہر شعبے میں ملازمت بنادیا گیا ہے۔ اب گھر کا صرف ایک مرد کما کر چار پانچ لوگوں کو نہیں کھلا سکتا۔ صرف بجلی، گیس کے بل اور مہنگائی دیکھ لیں لوگوں کی مجبوری سمجھ میں آجائے گی۔ اس کے بعد اگلا قدم جب یہ خواتین گھروں سے نکل ہی پڑتی ہیں تو ان کے لیے اپنا کوئی شعبہ نہیں ہے انہیں مردوں ہی کے زیر تسلط نظام میں کام کرنا پڑتا ہے۔ الاماشاء اللہ کچھ جگہوں پر مثالیں مل سکتی ہیں کہ فلاں ادارے کی سربراہ تو خاتون ہے۔ فلاں صاحبہ تو گورنر اسٹیٹ بینک رہ چکیں، لیکن یہ فلاں فلاں ان لاکھوں خواتین کے لیے مثال نہیں ہوسکتیں جو روزانہ گھر سے نکلنے کے بعد سے مردوں کے نشانے پر رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ نشانہ بن جائیں یا محفوظ طریقے سے گھر پہنچ جائیں۔
(جاری ہے)