پچھلے ایک سال کے دوران، مصنوعی ذہانت ایک نمایاں اور بڑے پیمانے پر زیر بحث موضوع کے طور پر ابھری ہے۔ یہ اب محض ایک لفظ نہیں ، بلکہ عملی ٹول ہے جسے فعال طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ChatGPT ، ہوBard ہو یا Midjourney جیسے سیکڑوں پلیٹ فارم، یہ سب ہماری دنیا میں کام کے طریقوں کوتبدیل کر رہے ہیں۔یہ AI کی ساری ترقی درحقیقت انسان اور انسانی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے مترادف چل رہی ہے،پوری نوع انساں کے وجود کو خطرات نظر آرہے ہیں۔ ہم شاید بھول گئے ہیں کہ سولہویں صدی میں آنے والاصنعتی انقلاب جو معاشرتی تبدیلیاں یورپ میں لا رہا تھا تو اُس پر بھی انتہائی شدید احتجاج ہو اتھا۔ یہاں تک کہ گھڑی توڑنے پر سزائے موت رکھی گئی تھی ۔لوڈیٹی کی تحریک اس کا بڑا عنوان ہے۔اس سارے سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب نے طاقت کے زور پر جبر کے ساتھ نفوذ کیا۔یہی نہیں مسلم معاشرت میں چاہے وہ خلافت عثمانیہ میں ہویا برصغیر میں ، اہل حق نے ہمیشہ بروقت اِس جدیدیت بھرے مشینی عمل کی مخالفت ہی کی ۔ اقبال نے بھی خاصی تحقیق کرکے ہی “یورپ کی مشینوں ” کو ابلیس کا سہارا قرار دیا، ” دل کے لیے موت” قرار دیا، تو ظاہر ہے کہ یہ سب ایویں نہیں تھا۔ ٹھیک اِسی طرح اب جوآرٹیفیشل انٹیلیجنس کا مشینی انقلاب آرہا ہے وہ بھی بچی کھچی معاشرت کو ختم کرے گا۔ اس کو یوں سمجھ لیں کہ صنعتی انقلاب نے خاندان کا ادارہ ختم کرکے ” مجرد فرد ” یا ہیومن ” کو جنم دیاجو مکمل سیاسی معاشی وجود تھا۔اب AIکا انقلاب اس ہیومن بینگ کی مشینی و حیوانی تعبیر کی سمت گامزن ہے۔مصنوعی ذہانت کے تیزی سے پھیلتے ہوئے استعمال پر سب کی عجیب تشویش بالکل بجا ہے۔یوںبھی کہ مشینوں کو سنبھالنا ہر ایک کے لئے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
کیا ڈیٹا کی چوری ، دنیا کا اہم مسئلہ نہیں بن چکی ؟چینیوں کے لیے خطرہ، امریکیوں اور یورپیوں کے لیےخطرہ نہیں؟ اب اتنے سارے ڈیٹا کو کہاں ،کیسے سنبھالیں؟ٹک ٹاک پر امریکہ میں پابندی اسی سلسلے کی ہی کڑی نہیںہے؟یہ تو کسی عالمی ایٹمی جنگ سے بھی آگےکی چیز لگ رہی ہے۔پاکستان ہی دیکھ لیں، بہاولپور یونیورسٹی کیس بھی ڈیٹا کی فون و موبائل سے برآمدگی کا نتیجہ تھا۔بہاولپور کے علاوہ ڈیٹا کی چوری کی تازہ نہج دیکھیں تو آن لائن قرض لیکر خودکشی والی مثال بھی اہم ہے ، کیونکہ اس کے فون کا ڈیٹا چوری ہوکر ہی یہ سب کام انجام کروا رہا تھا کہ اُس کو خود کشی کرنی پڑ گئی۔مصنوعی آئی ڈی کے ذریعہ، آپ کے فون ریکارڈنگ سے آپ کے رشتہ داروں، دوستو کی آواز ہی نہیں لہجہ کی نقل بناکر لوگوں کو لوٹنا، صرف پاکستان، بھارت ہی نہیں دنیا بھر میں جاری ہے۔ایسے میں آپ سوچیں کہ کسی کے پاس آپ کے بچوں ، آپ کی ، آپ کے اہل خانہ کی تصاویر مل جائیں تو کیا کچھ ہو سکتا ہے؟؟کہیں کا سی سی ٹی وی کیمرے ہیک کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔آپ کے فون میں لگا کیمرا ، مائیک کب آن ہے کب آف یہ آپ کو خود نہیں معلوم ہوتا۔اس لیے میں بار بار متوجہ کرتا ہوں، بار بار جھنجھوڑ رہا ہوں۔ یہودی فلسفی یوول نوح ہراری کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلی جنس والے آنے والے دنوں میں اپنی مذہبی تحریریں خود ترتیب دے سکیں گے۔ان کے باقاعد ہ عبادت گزار ہوں گے، اس طرح مستقبل میں نئے مذاہب بنیں گے۔ان تصورات کو ہالی ووڈ نے اور بھارت نے باقاعدہ پورے شعور کے ساتھ فلماناشروع کر دیا ہے تاکہ لوگ بعد میں قبول کر سکیں۔
مصنوعی ذہانت کی سب سے معروف شکل ChatGPT یعنی تحریری باتیںکرنے والا ایک AI سافٹ ویئر ہے جسے Large Language Model, LLM کہا جاتا ہے۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایسے جواب دیتا ہے جیسے انسان ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی کو اوپن اے آئی نامی امریکی کمپنی نے بنایا ہے۔اور اس کی مقبولیت اتنی تیزی سے بڑھ گئی کہ یہ دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی آن لائن سروس بن گئی۔Netflix کو 1 ملین صارفین تک پہنچنے میں 3.5 سال لگے۔ٹویٹر کو 2 سال لگے۔فیس بک کو 10 مہینے لگے۔انسٹاگرام کو ڈھائی ماہ لگے،مگر ChatGPT نے یہ سنگ میل صرف 5 دنوں میں حاصل کیا۔نومبر 2022 میں چیٹ جی پی ٹی ورژن 3.5 کو عام استعمال کے لیے پیش کیا ۔ویسے تو ہرسوال کا جواب گوگل سے بھی مل رہا تھا مگر یہاں نوعیت ذرا دلچسپ اور الگ ہوتی ہے،جوجوابات آتے ہیں تو لگتا ہے جیسے کوئی انسان اس کا جواب دے رہا ہو۔چاہے آپ اسے ایک حقیقت پسندانہ سوال پوچھیں۔یا گرامر سے متعلق سوال یااس سے رسمی خط لکھنے کو کہیں۔آپ کو یہاں حیرت انگیز درستگی دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ ٹیکنالوجی اتنی انقلابی ہے کہ بڑی کمپنیوں نے اسے دیکھا اور پھر اپنے اپنے الگ AI چیٹ بوٹس کا آغاز کیا۔چیٹ جی پی ٹی کے جواب میں،گوگل نے اپنا گوگل ” بارڈ ” لانچ کیا۔مائیکروسافٹ نے اپنا Bing AI لانچ کیا،اگرچہ OpenAI اور Microsoft ایک شراکت میں ہیں۔اسنیپ چیٹ نے اپنا MyAI لانچ کیا۔اس کے علاوہ کئی کمپنیاں،چاہے وہ Quora ہو، Duolingo، پہلے ہی اپنے سسٹمز میں AI کو شامل کر چکے ہیں۔اس کا ورژن 3.5 استعمال کرنے کے لیے مفت ہے۔آپ کو صرف ایک اکاؤنٹ بنانا ہوتاہے۔OpenAI کی ویب سائٹ پرآپ اس سے کچھ بھی پوچھ لیں وہ آپ کو تحریر کی صورت جواب دے دیتا ہے۔ایمیزون جیسی کمپنیاں کہتی ہیں کہ وہ اب AI استعمال کریں گےکتابیں لکھنے کے لیےاور پھر انہیں اپنی ویب سائٹ پر فروخت کریںگے۔ای میلز کا خود سے جواب دے دینا،آپ کے لیے کسی موضوع پر ای میلز لکھنا،آپ کی پڑھائی میں مدد کرنا،آپ کے اسکول ، دفتری کام میں آپ کی مدد کرنا،آپ کو صحت کا مشورہ دینا سمیت ہر قسم کے مشورے دے سکتا ہے۔
یہ سب کام بتدریج انسانوں کو مزید مشینی دور میں داخل کرنے کے لیے ہے۔اس وقت بلا شبہ ہم عالمی سطح پر ایک نئے مصنوعی مشینی انقلاب کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔جی ، ایسا انقلاب جسے لوگ دل سے قبول کر رہے ہیں، آسانی کے نام پر ، سہولت کے نام پر، جدیددور کے نام پر ، زمانے کے ساتھ چلنے کے نام پر۔ذرا غور کریں ، کہ مصنوعی ذہانت ہر چیز کو متاثر کرنےجارہی ہے۔جاب مارکیٹ تبدیل ہونے جا رہی ہے۔سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے کا انداز بدلنے والا ہے۔سیاسی نظام بدلنے والا ہے۔فوجی جنگ بدلنے والی ہے۔کارخانوں ، کمپنیوں میں “ملازمتوں کو خودکار کرنےپر بات ہو رہی ہے” یا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جلد ہی ایسا کرنے جا رہے ہیں۔
گو کہ اس میں پہلا خطرہ ملازمتوں سے متعلق کہا جاتا ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر AI اتنا کچھ کر سکتا ہے۔اور اتنے اچھے طریقے سے،اور انسانوں سے بہتر کارکردگی دکھاتے ہیںپھر بہت سے لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ تاریخ میں جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی،اس کا یقینی طور پر نوکریوں پر اثر پڑا ۔جب اسمارٹ فونز متعارف کرائے گئے،لینڈ لائن ٹیلی فون آپریٹرز کی تمام نوکریاں ختم ہوگئیں۔جب گاڑیاں آئیں،گھوڑا گاڑیاں چلانے والوں کی ملازمتیں تقریباً ختم ہو چکی تھیںیا ان ملازمتوں کی مانگ میں زبردست کمی آئی۔اسی طرح آن لائن ویب سائٹس کی آمد کی وجہ سےبکنگ کلرکوں کی نوکریاں ختم ہو گئی ہیں۔صنعتی روبوٹ کی آمد کی وجہ سے،اسمبلی لائن ورکرز اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔لیکن مصنوعی ذہانت کا خطرہ ان تمام ٹیکنالوجیز سے بہت بڑا ہے۔اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں۔پہلا یہ کہ اے آئی ٹیکنالوجی کا اثر کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہے گا۔یہ ہر میدان میں نظر آئے گا۔یہ پہلی بار ہوا ہے۔کہ تخلیقی لوگوں کی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔لوگ سمجھتے تھے کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی بہتر ہوتی ہے،سب سے زیادہ میکنیکل کام،وہ ملازمتیں جن کے لیے سب سے زیادہ بار بار کام کی ضرورت ہوتی ہے،جانے والے پہلے ہوں گے۔کسی نے نہیں سوچا تھا کہ گرافک ڈیزائنرز جیسی تخلیقی ملازمتیں بھی ختم ہو سکتی ہیں۔لوگو ڈیزائنرز اور موسیقاروں کی نوکریاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
AI سافٹ ویئر جیسے Midjourney اور Stable Diffusionآپ کے لیے تصاویر بنا سکتے ہیں۔اور منٹوں میں لوگو اور گرافکس بناسکتے ہیں۔AI کا اثر بہت بڑا اور تیز ہونے والا ہے۔جو بھی شعبہ اس سے متاثر ہوگا،لاکھوں پرانی نوکریاں بے شک وہاں سے ختم ہو جائیں گی، مگرکچھ نئی نوکریاں بھی جنم لیںگی۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پوری دنیا میں AI کی وجہ سے2025 تک 85 ملین ملازمتیں ختم ہو جائیں گی ۔مگر اے آئی کی مدد سے،اس ٹائم فریم میں 90 ملین نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔مگر ان تمام نئی ملازمتوں میں مصنوعی ذہانت کی مہارت کی ضرورت ہوگی۔مثال کے طور پر، ایک طرف، ایک گرافک ڈیزائنر اپنی نوکری کھو سکتا ہے،جہاں اسے مزید لوگو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔دوسری طرف، ہمیں ایک شخص کی ضرورت ہوگی۔جو لوگو بنانے کے بارے میں AI کو ہدایات دے سکتا ہے۔اب بھی ایک شخص کی ضرورت ہوگی جو AI کے آؤٹ پٹ کو تبدیل کرکے موافق بنائے۔ اسی لیے یوں کہاجائے گا کہ اب اے آئی آپ کا کام نہیں کرے گا لیکن AI کو جاننے والا شخص کرائے گا۔
ایسے میں یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں شرح خواندگی کیا ہے؟ پھر اس میں کمپیوٹر خواندہ کتنے ہیں؟ پھر اس میں AI خواندہ کتنے ہوں گے؟اس لیے یہ صاف نظر آرہا ہے کہ آنے والے برسوں میں، AI ایک نیا معیار بن جائے گا۔کہ اگر آپ نوکری چاہتے ہیں تو آپ کو AI کا بنیادی علم ہونا چاہیے۔جیسے، کسی وقت نوکری کے لیے کمپیوٹر کا بنیادی علم ہونا ضروری تھا۔جاب مارکیٹ کے بعد آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا اگلا بڑا اثرہمارے تعلیمی نظام پر ہوگا۔آپ کو یاد ہے کسی زمانے میں اساتذہ کہا کرتے تھے۔آپ کو ریاضی کرتے وقت کیلکولیٹر کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ آپ کے پاس ہمیشہ کیلکولیٹر نہیں ہوگا،لیکن ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے اور اتنی تیزی سے بدل گئی کہ اب کیلکولیٹر کی اجازت دے دی گئی ۔اسی طرح اب، AI بھی ہمارے لیے دستیاب ہوگا۔ میرے بچوں کو اسکول سے ہوم ورک میں انٹرنیٹ استفادے کا کہا گیا۔یوں۔جب ChatGPT شروع میں مقبول ہونا شروع ہوا،طالب علموں کی طرف سے استعمال کا پہلا معاملہ ان کے ہوم ورک کرناتھا۔آپ کو دنیا بھر سے دلچسپ خبریںملیں گی کہ اسکول ، کالج جامعات کے اسائنمنٹس کو مکمل کرنے کے لیے ،ChatGPT کو کس طرح استعمال کیا گیا، جو، مجھے یقین ہے، ChatGPT کا ایک بہت ہی احمقانہ استعمال ہے۔
Chatgptکا ورژن 4 بھی تیار ہو چکا ہے، مگر یہ ابھی مکمل مفت والا نہیں ہے، اسکی سبسکرپشن 20ڈالر ماہانہ رکھی ہے اور دعویٰ ہے کہ یہ 25 زبانوں کے ساتھ پچھلے مفت والے ورژن سے کہیں زیادہ بہتر و موثر جواب دینے کا اہل ہے۔ مزید یہ کہ فراڈ کرنے کے عمل میں مزید آسانیاں و رستے نکال کر دے گا۔اگر غلط جواب دیا اور آپ نے اندھا دھند نقل ماری تو آپ خاصا پچھتائیں گے ۔ جیسے میں نے گوگل بارڈ سے پوچھا کہ جماعت اسلامی نے 2023 کے بلدیاتی الیکشن میں کتنی سیٹیں حاصل کیں تو اس نے جواب دیا کہ جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کر دیا اور الیکشن نہیں لڑا۔اس جواب کے بعد میں نے بارڈ انتظامیہ کو جو لکھنا تھا لکھ دیا مگرمجھے سمجھ آگئی کہ اس پر کتنا یقین کرنا ہے۔
اِسی طرح سیاست میں AI کا استعمال شاید اس کے لیے سب سے خطرناک چیز ہے۔اور یہ پہلے ہی کیا جا رہا ہے۔2016 میں، جب AI اس سطح تک نہیں پہنچا تھا،فیس بک کیمبرج اینالیٹیکا ڈیٹا اسکینڈل میں مشین لرننگ کا استعمال کیا گیا۔فیس بک پر بڑی مقدار میں ڈیٹا استعمال کیا گیا۔اور مشین لرننگ، مصنوعی ذہانت کا ایک شعبہ،مختلف ووٹرز کو مختلف پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔لوگوں کو ان کی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر پرکھا جاتا تھا۔وہ کس قسم کی چیزیں پسند کریں گے۔ان کی شخصیت۔اور انہوں نے جو اشتہارات دیکھے، وہ ان کی شخصیت کے مطابق تھے۔2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اور برطانیہ میں بریکسٹ ووٹ کے دوران،یہ اس کے استعمال کی دو بڑی سیاسی مثالیں تھیں۔
ایک جانب AI ٹولز کا استعمال آپ کو جس طرح عادی بنارہا ہے تو ضرورت یہی ہےکہ ایسے “دجل” میں جتنی جلدی ہو سکے لوگوں میں صحیح ،غلط اور حق و باطل کا ، اپنے اقدار پر چیزوں کو جانچنے کا شعور دیاجائے۔ مصنوعی ذہانت اب تک پردے کے پیچھے تھامگر اب یہ اسکرینوں سے نکل کر جسمانی دنیا میں آرہا ہے۔بوسٹن ڈائنامکس جیسی کمپنیاںپہلے بھی ایسے روبوٹ بنا چکے ہیں۔جو انسانوں کی طرح بات چیت ہی نہیں حرکت، کام بھی کر سکتے ہیں۔انہیں سونے یا کھانے کی ضرورت بھی نہیں ۔ امت کا یہ اجماعی فہم ہے،اس کو جدید ترقی، سائنس ، ٹیکنالوجی، جو چاہے نام دے دیں ،نبی کریم ﷺکے فرامین کی روشنی میں تو وہ سب فتنہ ہی ہیں۔اب جان بوجھ کر فتنوں میں پڑنا ، اسکو اوڑھنا بچھونا بنانا اور یہ کہہ کر کہ یہ تو سب کر رہے ہیں، فلاں بھی کر رہا ہے ، فلاں بھی ، تو ہم بھی کرلیں تو کیاہے؟یقین مانیں۔ یہ انتہائی جہل پر مبنی فیصلہ ہوگا، کیونکہ یہ والا جواب کبھی بھی آپ کی آخرت میں نجات کا سبب نہیں بن سکے گاکیونکہ عالم کا فتویٰ لیا جاتا ہے، عمل نہیں۔ ہم مزید اس سلسلے کو وقتاً فوقتاً اآرٹیفیشل انٹیلیجنس تک لے کر جائیں گے تاکہ آپ کو خبردار کر سکیں۔