سول جج کا گھر یا عقوبت خانہ

1050

میرا دل اس وقت خون کے آنسو رو رہا ہے اور میرے الفاظ دم توڑ رہے ہیں سوچتا ہوں یہ مْنصف ہیں یا جلاد جو اپنے گھر میں کام کرنے والی 14 سالہ کمسن ملازمہ رضوانہ کو تحافظ نہ دے سکے، میڈیا میں اس درد ناک واقع کی خبر سْن کر سوچنے لگا کہ آسماں کیوں نہ پھٹا زمین کیوں نہ لرزی اب اور کون سی قیامت باقی رہ گئی، جب ظلم کی انتہا ہوجائے اور مضبوط سے مضبوط اعصاب رکھنے والے انسان کے لیے بھی یہ ظلم و درندگی دیکھنا مشکل ہو جائے، ججوں کے گھر بھی انصاف سے خالی ہوں تو ایک عام آدمی کس سے انصاف مانگے۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے سول جج کے گھر کا ہے جن کے گھر میں انصاف نہیں عقوبت خانہ قایم ہے۔ اسلام آباد کے سول جج عاصم حفیظ کے گھر اْن کی اہلیہ نے اپنی گھریلو ملازمہ پر ایسا جسمانی تشدد کیا کہ روح کانپ جائے، اْن کی اہلیہ سومیہ کو کس نے یہ اختیار دیا کہ وہ مْنصف بن جائے اور خود ہی سزا دینا شروع کر دیں، تفصیلات سْن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسا تشدد کہ اس کے سر میں کیڑے پڑ جائیں اْس کی کمر پر گہرے زخم پڑ جائیں اس کی گردن کے نشانات بھی اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس کی گردن دبا کے اس کا گلہ بھی گھونٹا گیا ہو جس کے واضع نشان اس کے معصوم جسم پر موجود ہیں، پھر جب وہ اپنی زندگی کی بازی ہارنے لگی تو اس کو اس کے والدین کو اسلام آباد بلا کر بچی اْن کے حوالے کر دی، بچی کے والدین نے میڈیا کو بتایا کہ چند روز قبل جب ہم لوگوں کو اپنی بچی سے ملوانے اسلام آباد بلوایا گیا تو بچی زخمی حالت میں ملی اور مسلسل رو رہی تھی، نہ جانے اْس کا ایسا کون سا بھیانک جرم تھا جس کے عوض میری بچی کو اتنی سخت سزا ملی، پھر ہم اپنی بچی کو لیکر سرگودھا واپس لے گئے۔ جہاں پر موجود ڈسٹرکٹ پولیس افیسر (ڈی پی او) سرگودھا جو ایک نیک صفت انسان ہیں جنہوں نے اپنی وردی کا پاس رکھتے ہوئے نہ صرف اس بچی کو (ڈی ایچ کیو) سرگودھا میں ہر ممکن طبی سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا، اور ساتھ ساتھ اس بات کی تصدیق بھی کی کہ بچی کے سر پر 15 چوٹوں کے نشانات بھی ہیں، جس کے باعث اسلام آباد پولیس نے بچی کے والد منگا خان کی شکایت پر تھانہ ہمک میں مقدمہ درج کر لیا۔
اسپتال ذرائع کے مطابق بھی اس بات کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ بچی کے جسم پر بے شمار تشدد کے نشانات موجود ہیں، بلکہ اْس کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں دوسری جناب سول جج عاصم حفیظ انصاف کے اس گلے سڑے فرسودہ نظام اور اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اس مقدمہ کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے، اور اپنی اہلیہ کو بچانے کے لیے معصوم بچی پر بے بنیاد الزامات لگاتے رہے، جب میڈیا نے اس خبر کو چلانا شروع کیا تو اب وہ بچی کے والدین سے صلح صفائی اور اْن کو اس مقدمہ سے دست بردار ہونے کے لیے لالچ دے رہے ہیں نہ صرف عاصم حفیظ بلکہ اْن کے والد بھی اپنی بہو کو بچانے کے لیے بچی کے والدین پر دبائو ڈال رہے ہیں۔
میں اسلام آباد پولیس کے سربراہ ڈاکٹر اکبر ناصر سے یہ درخواست کروں گا کہ جج صاحب کی اہلیہ ملزمہ سومیہ کو فوری گرفتار کیا جائے کیونکہ جن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ ناقابل ضمانت دفعات ہیں، لہٰذا مقدمہ کی تفتیش میرٹ پر کی جائے اور تمام تر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں اور ساتھ ساتھ سول جج جناب عاصم حفیظ کو بھی گرفتار کیا جائے کیوں کے اس بچی پر تشدد ان کی ناک کے نیچے اْن کے گھر میں ہوا ہے، جس جج کے گھر میں اپنے ملازموں کو انصاف نہ مل سکے وہ معاشرے میں کیا انصاف قایم کرے گا، اگر میرے قارئین کو یاد ہو تو ایسا ہی ایک واقعہ 2017 میں بھی پیش آیا تھا، جس میں اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج اور اْن کی اہلیہ کے خلاف کمسن بچی پر گھریلو تشدد کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا اور جْرم ثابت ہونے پر انہیں 3 سال کی قید سْنائی گئی تھی اور اس سزا کو عدالت عظمیٰ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
میں چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ اس دل خراش واقعہ کا سختی سے نوٹس لیں اور معصوم رضوانہ کو انصاف دلوایں اور اْس کے والدین کے زخموں کا مرہم بنیں، تاکہ اس قسم کی درندگی سے کوئی اور رضوانہ شکار نہ ہو، اس اْمید کے ساتھ آپ جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ بات بھی ثابت کریں، جرأت مند جج ہی ملک و قوم کی اہم ضرورت ہیں، اور آپ جیسے جج ہی انصاف قایم کر سکتے ہیں، کیوں کے انصاف کے بغیر نہ ملک باقی رہتا ہے نہ معاشرہ باقی نہیں رہتا۔