اسلام آباد:وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں کے ختم ہونے کاایک طریقہ کار ہے وہ طریقہ کاراپنایا گیااورمریم نوازشریف بری ہوئیں، میاں نوازشریف کا واپس آنا اوراس طریقہ کا رکو اختیارکرنا آئین اورقانون کاتقاضا ہے،
نجی ٹی وی میں گفتگو کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ بہت جلد میاں نوازشریف واپس آئیں گے اوراس طریقہ کارکواختیار کیاجائے گا،یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ نگران وزیر اعظم کے لئے ایک نام آیا اوروہ مستردہو گیا،اسحاق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا،اگر یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی سیاستدان بھی نگران وزیر اعظم ہوسکتا ہے تو پھر وہ یقیناً اسحاق ڈار بھی ہوسکتے ہیں اور اسحاق ڈار جیساکوئی اورسیاستدان بھی ہوسکتا ہے ،کسی اورجماعت کا کوئی لیڈر بھی ہوسکتا ہے۔
امن وامان کی صورتحال اگر خاص معنی میں لیں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امن وامان کی صورتحال درست نہیں، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سراٹھا رہی ہے اوراُس دہشت گردی کو کچلنے اوراس کا قلع قمع کرنے کے لئے ہرروز انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشنز ہوتے ہیں۔ان خیالات کااظہار رانا ثناء اللہ نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ جس دن قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کررہی ہے اس سے 48گھنٹے قبل اسمبلی کو توڑا جائے گاتاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 60کی بجائے الیکشن کے انتظامات کے لئے 90دن میسر ہوں، اس میں کسی قسم کی تاخیر یا ابہام کی کوئی گنجائش نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ نگران وزیر اعظم کے لئے ایک نام آیا اوروہ مستردہو گیا،اسحاق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا، نہ (ن)لیگ نے یہ بات کی اور نہ (ن)لیگ کے کسی رہنما نے یہ بات کی، یہ ایک افواہ ہوسکتی ہے جو خبر بنا کر لیک کی گئی،جس طرح ذرائع سے خبر دیتے ہیں اس کے بعد اس کی پاکستان مسلم لیگ (ن)نے بھی تردید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز زیر غور ہے کہ نگران سیٹ اپ میں کیا کوئی ٹیکنوکریٹ کے علاوہ کوئی اورنہیں ہوسکتا، کسی سابق بیوروکریٹ اور جج کے علاوہ کوئی سیاستدان نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے اوپر کوئی اتفاق رائے یا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اگر یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی سیاستدان ہوسکتا ہے تو پھر وہ یقیناً اسحاق ڈار بھی ہوسکتے ہیں اور اسحاق ڈار جیساکوئی اورسیاستدان بھی ہوسکتا ہے ،کسی اورجماعت کا کوئی لیڈر بھی ہوسکتا ہے، اگر اس کے اوپر کوئی اتفاق رائے نہیں ہوتاتوپھر یقیناً کوئی سابق بیوروکریٹ ہوسکتا ہے اورسابق جج ہوسکتا ہے لیکن اس میں ایک بنیادی چیز ہے کہ وہ ایک ایسا آدمی ہونا چاہئے جس کی اچھی شہرت ہو، اچھی ساکھ ہو، جس کے اوپر عمومی اتفاق رائے ہو سکتا ہو کہ یہ آدمی اس قابل ہے کہ اپنی ذمہ داری کو بہتر انداز سے اداکرسکتا ہے۔
میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے سزادی اس فیصلے کو کوئی تسلیم نہیں کرتا، سبھی کہتے ہیں یہ تعصب پر مبنی فیصلہ تھا، یہ فیصلہ ایسے چیف جسٹس نے دلوایا جس کی جانبداری پوری طرح سے عیاں سے ہے اور بعد میں مختلف حوالوں سے ثابت بھی ہوئی بلکہ خود بھی وہ اس کے اوپرشرمسار ہے اوراس کی جو صورتحال ہے وہ بھی سبھی کے سامنے ہے، نوازشریف کو جو سزاہوئی وہ ایک عدالتی فیصلہ ہے، بھلے ہی اس جج نے بعد میں تسلیم کیا کہ اس نے دبائو کے تحت غلط سزادی۔
عدالتی فیصلوں کے ختم ہونے کاایک طریقہ کار ہے وہ طریقہ کاراپنایا گیااورمریم نوازبری ہوئیں، میاں نوازشریف کا واپس آنا اوراس طریقہ کا کو اختیارکرنا آئین اورقانون کاتقاضا ہے، امید ہے کہ بہت جلد میاں نوازشریف واپس آئیں گے اوراس طریقہ کارکواختیار کیاجائے گا ، وہ اپنی حفاظتی ضمانت کرائیں گے،عدالت میں پیش ہوں گے، ان کی اپیلوں پر سماعت ہو گی اس کے بعد وہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ بری ہوں گے اور ان کے اوپر جو ان پر پابندیاں لگائی گئی ہیں یا عملی سیاست سے سازت کے تحت علیحدہ کیا گیا ہے وہ ختم ہو جائے گی۔