بچپن میں اکثر اپنی پھوپھی مرحومہ کے منہ سے یہ مہاورہ سْنتا تھا کہ تیلی کے سر پر تیل رکھنا، مگر قایم مقام صدر جناب صادق سنجرانی نے ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے اس مہاورے کو حقیقی شکل دے کر بتا دیا کہ اس کو کہتے ہیں تیلی کے سر پر تیل رکھنا، کہاں یہ رونا گانا کہ ملک کی معیشت تباہ ہو رہی ہے آئی ایم ایف سے قسط کے مْنتظر ہیں سعودی عرب، چائنا، اور دیگر دوست ممالک سے مدد کے مْنتظر ہیں دوسری طرف ججوں کی تنخواہوں اور مراعات دیکھ کر کہیں سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ ججوں کے مالی حالات اس قدر نا گفتا بہ ہیں کہ آئی ایم ایف کی پہلی قسط ملتے ہی ان کی تنخواہوں میں 2 لاکھ 4 ہزار 865 روپے کا اضافہ کیا گیا، کیا مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یہ سب سے اولین ترجیح تھی جیسے وزارت قانون و انصاف نے ججوں کی تنخواہوں میں 20 فی صد کے اضافے کا آڈر بھی جاری کردیا، اور یوں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی تنخواہ اب 12 لاکھ 29 ہزار 189 روپے ماہوار ہو گئی ہے اور مراعات آپ کی سوچ سے باہر، میں دل و جان سے عدالت عظمیٰ کے ججوں کو ان کی تنخواہیں بڑھنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، کیونکہ ملازمت پیشہ انسان کی تنخواہ تو اْسی وقت بڑھتی ہے جب بندہ دوران ملازمت اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے، یقینا صدر صادق سنجرانی ایک صاحب نظر انسان ہیں اْنہوں نے ان ججوں کی اعلیٰ کارگردگی دیکھ کر ہی فیصلہ کیا ہو گا، مگر کیا ان سب باتوں کے باوجود یہ تکلیف دہ بات نہیں ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کو اتنی مراعات دینے کے باوجود 20 لاکھ سے زیادہ مقدمات التوا کا شکار ہیں، تو پھر یہ عنایت کیسی؟
جبکہ پاکستان میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے ایک جج کی ماہانہ تنخواہ، الاؤنس اور مراعات کا پاکستان کے شہریوں کی آمدن سے موازنہ کریں تو ججوں کی ماہانہ تنخواہ 100 گنا زیادہ ہے،اور عوام 2 وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں، کروڑوں نوجوان بے روزگار ہیں، لاکھوں حالات سے تنگ آ کر ملک چھوڑ گئے، 80 فی صد آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں، 3 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، غریب کے لیے علاج کی سہولت نہیں، ملک کے تمام بڑے ادارے لاکھوں ارب کے خسارے میں مبتلا ہیں، اشرافیہ ریاست کے وسائل پر عیاشیاں کررہی ہے اور عدالت کے باہر لٹکا ترازو غریب عوام کو منہ چڑا رہا ہے، اور لاکھوں لوگ انصاف کے حصول اور اپنے مقدمے کے فیصلہ کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے رْخصت ہو گئے۔
یہی موازنہ اگر امریکا سے کیا جائے تو امریکی عدالت عظمیٰ کا جج ماہانہ بنیادوں پر جو تنخواہ وصول کرتا ہے جو عام امریکی شہری کی ماہانہ آمدنی سے صرف 4 گنا زیادہ ہے، اور تمام شہریوں کو انصاف بھی میسر ہے، جبکہ ہمارے ملک میں انصاف کا یہ عالم ہے کہ چیف جسٹس اپنے ایک سرکاری دورے میں ایک سیاسی رہنما کے اسپتال کے کمرے میں رکھی شراب کو شراب ثابت نہ کر سکے، پھر ایسے اداروں سے کیا انصاف کی توقعہ کی جا سکتی ہے، ہاں اگر آپ انصاف خرید سکتے ہیں تو ہمارے ملک سے اچھا عدالتی نظام کہیں نہیں ہے، بہتر تو یہ ہوگا کہ جہاں سرکار نے خاموشی سے بہت سے ادارے پٹے پر دے دیے ہیں وہاں عدالتی نظام بھی افغانستان کے حوالے کر دیا جائے اس سے جو سب سے بڑا فائدہ ہو گا وہ یہ کہ جلدی جلدی کیس نمٹنا شروع ہو جائیں گے اور لوگوں کو سستا انصاف گھر کے دروازے پر ملے گا، اگر اپ چرچل کے مشہور زمانہ اْس تاریخی جملہ یاد کریں جب جرمن فوج لندن پر بمباری کر رہی تھی تو چرچل کو ملک کے معاشی نقصان کے بارے میں بتایا گیا تو اْس نے کہا کہ کیا عدالتیں کام کر رہی ہیں جب یہ بتایا گیا کہ عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں، تو اْس نے کہا اب سب ٹھیک ہو جائے گا، کیونکہ اس کے پیچھے اعلیٰ سیاسی قیادت کا بھی ہاتھ تھا، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ہمارے ملک کی سیاسی قیادت اور ہمارا عدالتی نظام کہاں کھڑا ہے ہمارے ملک کا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں سارے مقدمے ہی سیاسی قائدین پر چل رہے ہیں اور حکومت اداروں کو چلانے میں مکمل ناکام ہے، پھر انصاف فراہم کرنے والوں کی کیا مجبوریاں ہیں یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
سر ونسٹن چرچل کا عالمی جنگ کے دوران بولا گیا یہ فقرہ زبان زد عام ہے کہ ’’ہماری عدالتیں اگر انصاف فراہم کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی خطرہ نہیں‘‘۔ حالانکہ اس وقت ہٹلر کی بے لگام ائر فورس لندن کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی تھی۔ جن لوگوں کو اس دانائی کی معنویت سمجھ نہیں آئی، وہ ہماری پاکستانی عدلیہ کے حالات و واقعات کا گہرائی سے مطالعہ کریں گے تو تمام حقائق روشن ہوجائیں گے۔ قانون کا ایک معروف اصول ہے کہ انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے بصورت دیگر لوگوں کا انصاف کی فراہمی کے عمل سے اعتماد اٹھ جائے گا۔