آرٹیکل 370 کی سماعت چار سال بعد کیوں؟

699

تنازع ریاست جموں و کشمیر تقسیم ہند کے بعد ہی معرضِ وجود میں آیا تھا اور پاک و ہند کے درمیان تناؤ کی بنیادی وجہ ٹھیری ہے تنازع کشمیر کی وجہ سے پاک و ہند کے درمیان کئی چھوٹی بڑی جنگیں بھی چھڑ گئیں ہیں جو بارہا نزاع کی کیفیت تک بھی پہنچ گئے ہیں لیکن نتیجہ املاک اور انسانی جانوں کے ضیاع کے بغیر کچھ نہ نکل سکا ہے اور جب تک تنازع کشمیر موجود رہے گا تب تک دونوں اطراف کے عوام بالعموم جب کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیری عوام بالخصوص مسلسل خسارے ہی سے دوچار ہوتے رہیں گے اور ایشائی خطہ تین ایٹمی ممالک بھارت، پاکستان اور چین کے ایٹمی وار ہیڈز کی نوک پر ہی جیتا رہے گا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیری عوام روز اول ہی سے جمہوری عمل سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے خواہاں رہے ہیں اور جمہوریت کی امیدوں کے بل بوتے پر جموں کشمیر کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیتے رہے لیکن مسلسل انتخابی بدعنوانیوں کی بدولت کشمیریوں کے سینے میں ہمیشہ خنجر گھونپے گئے ہیں بالآخر 1987 کے الیکشن کی ریکارڈ دھاندلی نے کشمیریوں کی امیدوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور جموں کشمیر کے عوام کو وعدے کے مطابق حق خودارادیت کے نہ ملنے پر مسلح جدوجہد کا فیصلہ لینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ نوے کی دہائی میں جموں کشمیر کے طول و عرض میں دہائیوں پر محیط بھارت کی نفرت میں ٹھاٹھیں مارتی اور تند و تیز عوامی لہروں نے بھارت سرکار کو مذاکراتی میز پر لانے پر مجبور کیا ہے اس بیش قیمت موقعے سے کشمیری قیادت موافق فوائد اٹھانے میں ناکام رہی ہے اور دہلی سرکار نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس نادر موقع کو غنیمت جان کو گزرتے وقت کے ساتھ بھرپور فائدہ اٹھا کر متنازع ریاست میں اپنی گرفت کو مضبوط کرتا گیا ہے اور مزاحمتی تحریک کو گرچہ ختم نہ کرسکا لیکن کمزور کرنے میں کامیاب رہا ہے یہاں تک کہ 2014 میں بی جے پی نے بھاری اکثریت حاصل کرکے بھارت کے مسند اقتدار پر قبضہ جمالیا ہے اور نریندر مودی نے بھارت کے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی متنازع ریاست جموں کشمیر پر مکمل توجہ مبذول کرکے جامع منصوبہ ترتیب دینا شروع کیا ہے اور 30 مئی 2019 کو دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد 5 اگست 2019 کو ریاست جموں کشمیر کے خصوصی حیثیت کو تحلیل کیا دفعہ 370 اور 35 اے کا خاتمہ کرکے ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز جموں کشمیر اور لداخ میں منقسم کردیا ہے جموں کشمیر کے تمام مواصلاتی نظام کو 6 ماہ تک مکمل منقطع کیے رکھا گیا ہے کشمیریوں پر اس مواصلاتی نظام کے لاک ڈاون کے دوران کیا بیتی شاید کبھی بھی منظر عام پر نہیں آسکتا اور بی جے پی سرکار ریاست جموں کشمیر میں حسب منشا احکامات پر عملدرآمد کرتی رہی ہے باوجود تمام قدغنوں کے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو بھارتی عدالت عظمیٰ میں چلینج کیا گیا ہے اور دو درجن سے زائد پیٹیشنز دائر کی گئیں لیکن بھارتی عدالت عظمیٰ چار سال تک ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تہس نہس ہونے پر ٹس سے مس نہ ہوسکی اور کسی ایک پیٹیشن کی شنوائی کرنا تک گوارہ نہیں کیا۔

بھارتی عدالت عظمیٰ کی دانستہ عدم توجہی کو اگر یوں سمجھا جائے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے دہلی سرکار کو غیر آئینی اقدامات سے روکنے کے بجائے کشمیر میں گھناؤنی کھیل کھیلنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تو بیجا نہ ہوگا اور اس دورانیے میں بی جے پی کی حکمرانی میں ریاست جموں کشمیر میں ظالمانہ، جابرانہ اور غیر انسانی اقدامات اور احکامات پر عمل درآمد کرتی رہی ہے۔ چار سال بعد 11 جولائی کو ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی پیٹیشنوں کی سماعت کی کیوں ضرورت پڑی ہے؟ سماعت سے قبل متنازع ریاست کے دارالحکومت سرینگر میں ججز کانفرنس منعقد کرانے کے کیا اغراض و مقاصد تھے؟ چیف جسٹس آف انڈیا کے بیان قومی مفادات اولین ترجیح ہیں کے بعد بھارتی عدالت عظمیٰ سے کیا توقعات باندھے جاسکتے ہیں؟ کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ باوجود اس کے، بالفرض اگر بھارتی عدالت عالیہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو بحال بھی کرے جس کی امید عبث ہے تو کیا بھارتی عدالت عظمیٰ آئین شکن بی جے پی اور نریندر مودی کو مورد الزام ٹھیرا کر کٹہرے میں کھڑا کردے گی؟ کیا ریاست کی وحدت کو دوبارہ بحال کیا جائے گا؟ کیا چار سال میں ریاست جموں کشمیر میں نافذ کیے گئے احکامات کو کالعدم قرار دیا جائے گا؟ کیا غیر ریاستی باشندگان کو دی گئی ملازمتوں سے فارغ کیا جائے گا؟ کیا غیر ریاستی باشندوں کو جاری کی گئے ڈومیسائل منسوخ کیے جائیں گے؟ کیا ان چار سال میں ریاستی عوام پر ڈھائے گئے مظالم کی کوئی باز پرس ممکن ہے؟ کیا لاک ڈاؤنز اور کاروباری بندشوں سے بیلینز آف ڈالرز کے اقتصادی نقصانات کو پورا کیا جاسکتا ہے؟ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے کیا ذہنی امراض میں مبتلا کشمیریوں کی نارمل زندگی بحال ہوسکتی ہے؟ کیا 90 فی صد منشیات کی لعنت میں مبتلا کشمیریوں میں زندگی کی رعنائیاں واپس لائی جاسکتی ہیں؟ کیا کشمیریوں کو زمین و جائداد کی ضبطی اور معاشی و اقتصادی بے دخلی اور ملازمتوں سے برطرفی کے احکامات واپس لیے جائیں گے؟ کیا کشمیری تنظیموں پر لگی پابندیوں کو ہٹایا جاسکتا ہے اور ان کے ضبط کیے گئے اثاثے واپس کیے جاسکتے ہیں؟ کیا کشمیریوں کے والدین کو گم نام قبروں میں دفن اولادوں کی سوخت شدہ لاشوں کی راکھ حوالے کی جاسکتی ہیں؟ کیا کشمیریوں کو لاپتا عزیز و اقارب اور نیم بیوہ خواتین کو ان کے شوہر واپس کیے جاسکتے ہیں؟ کیا 370 کی بحالی سے کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ کیا 370 کی بحالی سے کشمیروں کو حق خودارادیت کا حق مل سکتا ہے؟ کیا بھارت جموں کشمیر سے دس لاکھ فوج میں سے پانچ لاکھ فوج نکال سکتی ہے؟ ایسے ان گنت سوالات ہیں جو تشنہ لب ہیں۔

راقم نے بنیادی سوالات ’’آرٹیکل 370 کی سماعت چار سال بعد کیوں؟‘‘ اور ’’کیا بھارتی عدالت عظمیٰ سے انصاف کی امید کی جاسکتی ہے؟‘‘ پر ایک سروے سوشل میڈیا کے توسط سے کی ہے جس میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر، آزاد کشمیر اور بیرون ملک باشندگان کشمیر نے بھرپور رائے کا اظہار کیا ہے مقبوضہ کشمیر سے ایک عزیز نے لکھا ہے کہ ’’افضل گرو کے عدالتی قتل کے بعد بھارتی عدالت عظمیٰ سے کوئی امید نہیں، البتہ کشمیریوں کو راضی کرنے کے لیے بھارتی عدالت عظمیٰ مجوزہ آرٹیکل کی کوئی ایسی قابل قبول شکل سامنے لانے کی کوشش کرسکتا ہے‘‘۔ ایک صاحب نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مقبول بٹ اور افضل گورو کی پھانسی، یاسین ملک کی عمر قید کے فیصلے، محمد اشرف صحرائی کو جیل میں میڈیکل سہولت فراہم نہ کرنے اور موت کے گھاٹ اتارنے اور ہزاروں کشمیریوں کو بنا ٹرائل کے پابند سلاسل کرنے، کنن پوش پورہ اور شوپیان جیسے انسانیت سوز واقعات پر بھارتی عدالتوں کی خاموشی کے بعد کشمیریوں کو بھارتی عدالت عظمیٰ سے خیر کی امیدیں وابستہ کرنا احمقوں کے جنت میں رہنے کے مترادف ہی ہوگا۔ بہرحال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حلیف نے ہمیشہ حریف کو فروعی مسائل میں الجھا کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی حکمت عملی اپنائی ہے

بھارتی حکمرانوں نے بھی کشمیر عوام کو 370, 35A کے خاتمے اور بحالی، غیر ریاستی باشندوں کو ڈومیسائل کا اجرا اور منسوخی، غیر ریاستی باشندگان کی متنازع ریاست میں آباد کرنا یا نہ کرنا، انہیں ملازمتیں دینا یا نہ دینا جیسے بے شمار فروعی معاملات میں الجھا کر بنیادی مسئلے حق خودارادیت کے عمل درآمد اور ہندوستان سے آزادی جیسے کلیدی مسئلے سے توجہ ہٹانے کی حکمت عملی اپنا کر میسر وقت کا بھرپور اٹھارہا ہے اور جموں کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں شب و روز کار فرما ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر کشمیری قیادت پر ذمے داریوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہورہا ہے اور انہیں اس کڑے وقت میں واضح حکمت عملی جو کشمیر کے دیرینہ تنازعے کے آبرومندانہ حل میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے اپنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر مستقبل میں 19 اگست 2019 جیسے واقعات کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔