رسول اللہؐ کے دوسرے خلیفہ ٔ راشد سیدنا عمر فاروق ؓ تاریخ کے مثالی حکمران گزرے ہیں۔ انہوں نے ایک مثالی فلاحی ریاست قائم کی اور اس کے نظمِ اجتماعی کو منظم کرنے کے لیے شِعارِ حکمرانی کو نئی جہتیں عطا کیں، انہیں تاریخ میں ـ’’اوّلیاتِ عمر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ذہن ایجاد واختراع کی خداداد نعمتوں سے مالا مال تھا۔ ان کا عہد حکمرانی آج سے تقریباً 1421سال پہلے اختتام کو پہنچا، یہ عہدِ مسعود تقریباً ساڑھے دس برس پر محیط تھا۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فاتح اور سب سے بڑی ریاست کے حکمران تھے۔ ان کی شہادت سے اسلام اور اِنسانیت کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، اس کے بارے میں ایک صاحب قلم نے نہایت با معنی جملہلکھا ہے: ’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ قاتل کا زہر میں بجھا ہوا خنجر سینۂ عمر میں نہیں، قلب کائنات میں پیوست ہوگیا‘‘۔
ان کا ذہن ’’عرفانِ حق‘‘ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، کئی ایسے مواقع آئے کہ انہوں نے وحیِ ربانی کی منشا کو پہلے ہی سمجھ لیا، اس حوالے سے وہ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ کا مَظہر اَتمّ تھے۔ مفسرینِ کرام نے ایسی آیات ِ مبارکہ کو ’’مُوَفَّقاتِ عمر‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے: ’’تم سے پہلی اُمتوں میں ’’مُحَدَّث‘‘ گزرے ہیں اور اگر میری امت میں کوئی مُحدَّث ہے، تو وہ یقینا عمر ہیں‘‘۔ (مسند حمیدی) محدَّث سے مراد قلبِ صفا اور ذہنِ رسا کا حامل ایسا بلند مرتبہ مومن جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی حقائق کا الہام والقا ہوتا ہے۔
انہوں نے توفیقِ الٰہی سے حکمرانی کو جو نئی جہتیں عطا کیں، ان کی طویل فہرست ہے، ان میں سے چندنمایاں اُمور یہ ہیں: (1) مردم شماری: اُن سے پہلے دنیا میں مردم شماری یا انسانی آبادی کے اعداد و شمار مرتب کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا، انہوں نے اس کا اہتمام کیا، اُن سے پہلے سلطنتِ روما میں آبادی کے اعداد وشمار جمع کرنے کا کوئی خفیف سا سراغ ملتا ہے، لیکن وہ اس لیے تھا کہ لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جائے اور فاروقِ اعظم کی مردم شماری کا مقصد یہ تھا کہ ریاست کا فیض ریاست کے ہر شہری تک اُس کی ضروریات کے مطابق پہنچایا جائے۔ آج بھی دنیا میں ہر دس سال کے بعد مردُم شماری کا رواج ہے، آپس کے عدمِ اعتماد کی وجہ سے ہمارے ہاں ہر دس سال بعد تسلسل کے ساتھ مردم شماری نہ ہوسکی، 2017 کے بعد 2023 میں پاکستان میں موجودہ حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کرائی، لیکن اس کو بھی تمام طبقات مِن وعَن تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، خاص طور پر کراچی کی سیاسی قیادتیں شکوک وشبہات کا اظہار کر رہی ہیں، ہمیں قطعیت کے ساتھ معلوم نہیں ہے کہ ان شکوک وشبہات کے پیچھے حقائق کتنے ہیں اور محض پروپیگنڈا کتنا ہے۔
مردم شماری کی بنیاد پر ہی صوبوں میں وسائل کی تقسیم ہوتی ہے اور قانون ساز اداروں میں نیابت کا تناسب طے ہوتا ہے، مستقبل کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے منصوبۂ بندی کی جاتی ہے، یہ سوچ ایسے لوگوں کی ہو سکتی ہے جو ایک متحدہ قوم کے تصور اور جذبے سے معمور ہوں۔ مردم شماری کے ذریعے وسائل اور ضرورتوں میں توازن پیدا کیا جاسکتا ہے اور آنے والے دور کے لیے خدمات کے بنیادی ڈھانچے، شہری منصوبہ بندی، معاشی ضروریات اور انسانی حاجات کی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔
(۲) کفالتِ عامّہ: آپ نے ریاست کے مالی حالات بہتر ہونے پر ہر شہری حتیٰ کہ پیدا ہونے والے بچوں کے لیے بھی وظائف مقرر کیے، ان وظائف کے لیے معیارات مقرر کیے، ان معیارات میں اسلام میں تقدّم، رسول اللہؐ سے قرابت، درجات میں تفاوت اور ضرورتوں کو بھی ملحوظ رکھا، اپنی اولاد اور خاندان کو بعض فضیلتوں کے باوجود پیچھے رکھا، یہی وجہ ہے کہ اُن پر کبھی اقربا پروری کا الزام نہیں لگا۔ کہا جاتا ہے کہ بعض یورپین ممالک میں جو کفالتِ عامّہ کا نظام ہے، وہ شعارِ فاروقی سے مستفاد ہے۔
(۳) مُستَعمَرات یا نئے شہروں کی آباد کاری: اس کو جدید اصطلاح میں نو آبادیات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سیاسی اصطلاح میں استعمار سے مراد ہرعہد کی طاقت ور اور جارح اقوام کا دوسرے ممالک پر قبضہ کرکے انہیں اپنی حدودِ سلطنت میں شامل کرنا ہے۔ ماضی ٔ قریب میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈ، اسپین اور پرتگال اس طرح کی نو آبادیاتی سلطنتیں رہی ہیں، پھر روس نے بھی سوویت یونین کی شکل میں وسیع پیمانے پر استعمار کی صورت اختیار کی۔ نوآبادیات سے مراد پہلے سے قائم بڑے شہروں پر آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے تمام شہری سہولتوں اور معاشی وسائل پر مشتمل نئے شہر آباد کرنا ہے، چناچہ سیدناِ عمر فاروق نے کوفہ، بصرہ، جیزہ، فُسطَاط اور موصل کے نام سے نئے شہر آباد کیے۔
ہم آج کل اپنے بڑے شہروں پر آبادی کے اسی دباؤ کا شکار ہیں۔ بڑے شہروں میں بنیادی شہری خدمات و ضروریات آب رسانی، سیوریج اینڈ سالڈ ویسٹ، بجلی اور گیس کی ترسیل کا نظام، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، تعلیمی اداروں، کھیل کے میدانوں اور رفاہی اداروںکے لیے زمینی قطعات کی فراہمی وغیرہ کا نظام ایک محدود آبادی کے لیے تھا، جو اب بے ہنگم طریقے سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، مجرموں کے لیے خفیہ پناہ گاہیں بھی زیادہ دستیاب ہیں۔ ملک بھر میں جنگل کی طرح پھیلتی ہوئی ہاؤسنگ اسکیموں اور ٹاؤن شپس کے ذریعے زرعی زمینوں کا نہایت بے رحمی کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے، اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو اشیائے خوراک کی قلّت کی صورت میں بھگتنا ہو گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری حکومتیں کمزور بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں، روزمرہ بنیادوں پر چلتی ہیں، مستقبل بینی پر مبنی کوئی دس بیس سالہ منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔
سیدنا عمر فاروق کو اللہ تعالیٰ نے مستقبل بینی اور پیش بندی کے حوالے سے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آج کے دور میں جب ہم اس کا تصور کرتے ہیں تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ان کا ذہن رسا سید المرسلینؐ کی شانِ اعجاز کا مظہر تھا۔ پس یہی سبب ہے کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے اسلام کی سربلندی کے لیے عمر کو مانگا، ارشادِ رسول ہے: ’’اے اللہ! عمر بن ہشام (ابوجہل) یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور قوت وطاقت عطا فرما، جب صبح ہوئی تو سیدنا عمر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا‘‘۔ (ترمذی) یہ اپنا اپنا مقدر تھا کہ زبانِ نبوت سے ابوجہل اس اُمت کا فرعون قرار پایا اور عمرِ فاروق اسلام کی آبرو اور شان قرار پائے۔
اسلام کو قبائلی نظام وراثت میں ملا تھا، اس میں کسی منظم ریاست کا وجود تھا، نہ ریاست کی طرف سے تنخواہ دار منظم فوج تھی۔ لہٰذا تمام قبائل کے جنگ جُو اپنا اپنا سامانِ حرب اور زاد ِ راہ لے کر جنگ میں شریک ہوتے اور فتح کی صورت میں دشمن کاجو مالِ غنیمت ہاتھ آتا، وہ مجاہدین میں تقسیم ہو جاتا، ابتدائے اسلام میں یہی شِعار جاری رہا۔ لیکن ایک وقت آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا اور قرآن نے خُمس کو رسول اللہؐ کی صواب دید پر رکھا اور اس کے مصارف متعین فرمائے، پھر وہ دور آیا کہ کئی خطوں کے لوگ مسلمانوں کی لشکر کشی کے بغیر بلا مقابلہ اطاعت قبول کرنے پر آمادہ ہونے لگے، ان سے جو مال ملتا وہ ’’مال ِ فے‘‘ کہلاتا، قرآن ِ مجید نے سورہ الحشر میں اس کے مصارف بیان فرمائے اور بتایا کہ اسلام کا مزاج دولت کے ارتکاز کا نہیں ہے، بلکہ تقسیم ِ دولت کا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگ ا س سے فیضیاب ہوں۔
عہدِ فاروقی میں فتوحات تواتر سے ہو رہی تھیں، علاقوں پر علاقے اور شہروں پر شہر فتح ہو رہے تھے۔ اُس عہد کے رائج دستور کے مطابق مجاہدین نے مطالبہ کیا کہ مفتوحہ علاقوں کو جاگیر کے طورپر اُن میں تقسیم کر دیا جائے۔ سیدنا عمر کو اس پر تردُّد تھا، آپ مسلسل صحابہ ٔ کرام سے مشاورت کرتے رہے اور بالآخر ایک دن آپ نے صحابۂ کرام کو جمع کیا اور سورۃ الحشر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’اس میں آنے والی نسلوں کا بھی حصہ ہے اور اُن کے حُقوق کا تحفظ بھی ہماری ذمے داری ہے، لہٰذا یہ زمینیں آنے والے زمانوں میں ضرورت مند لوگوں کے کام آتی رہیں گی، سیدنا عمر نے ان زمینوں کو ریاست کی تحویل میں رکھا‘‘۔ اب آپ سیدنا عمر کی بصیرت کا اندازہ لگائیے اور موجودہ دور میں کراچی میں چائنا کٹنگ کا تصور کیجیے کہ رِفاہی خدمات اور اداروں کے قیام کے لیے جو کھلی اراضی اور رفاہی پلاٹ کے ڈی اے کی ٹاؤن پلاننگ میں موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ضرورتوں کے لیے مختص کیے گئے تھے، وہ بندر بانٹ کی نذر ہو گئے۔
حریص لوگوں نے موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ضروریات کو ہوسِ زر اور حصولِ زمین کی نذر کر دیا۔ اگر یہی روِش جاری رہی تو لوگوں کے لیے شہروں میں سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔ اب اسپتالیں اور تعلیمی ادارے بالعموم رہائشی مکانوں اور بنگلوں میں قائم ہیں اور کھیل کود کے میدان با اثر حریص لوگوں کی نذر ہو گئے یا عشرتوں کے دل دادہ قبضہ مافیا والے اُن پر قابض ہو گئے اور یہ سارے کام ان اہلِ اقتدار کی نظروں کے سامنے ہوتے رہے، جن کو لوگوں نے اپنی امانتوں کے تحفظ کے لیے وقتاً فوقتا مسندِ اقتدار پر بٹھایا۔ میں نے عہدِ فاروقی کو حالاتِ حاضرہ سے اس لیے جوڑا ہے کہ کسی اعلیٰ چیز کا تقابل اس کی ضد سے کریں تو اس کی حقیقی قدر معلوم ہوتی ہے، عربی شاعرمتنبی نے کہا ہے:
وَنَذِیْمُھُمْ وَبِھِمْ عَرَفْنَا فَضْلَہٗ
وَبِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الْاَشْیَائُ
ترجمہ: ’’اور ہم اپنے ممدوح کے بدخواہوں کی مذمت کرتے ہیں، حالانکہ انہی کے سبب ہم نے اپنے ممدوح کی فضیلت کو جاناہے، کیونکہ چیزوں کی قدر و منزلت ان کی ضد دیکھ کر ہوتی ہے‘‘، یعنی جب ہم کمینوں اور رزیلوں کے شر کو دیکھتے ہیں، تو شُرفاء کی حقیقی قدر معلوم ہوتی ہے۔