سوشل میڈیا اہم ہے

630

آج کے دور کو سوشل میڈیا کا دور کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، یہاں جو چیز وبائی (وائرل) ہوگئی تو سمجھ لیجیے کہ وہ ہی کامیاب ہوگئی۔ لیکن وہ حقیقت ہے یا نہیں اس کے بارے میں اکثریت شک و شبہ میں ہی رہتی ہے۔ یعنی جھوٹ اور سچ اتنا ملاوٹ کا شکار ہے کہ جھوٹ سچ اور سچ کو جھوٹ سمجھا جارہا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے چینل، سرچ انجن اور پیغام رساں ایپلی کیشن ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اربوں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہیں۔ صرف فیس بک پر تقریباً تین ارب لوگ موجود ہیں۔ یہ سارے پلیٹ فارم جہاں مثبت جدوجہد کے لیے لوگوں کو جوڑنے کا کام کررہے ہیں وہاں تنازعات کو ہوا دینے، غلط رنگ دینے، جھوٹی خبریں پھیلانے اور انسانیت کے لیے خطرات پیدا کرنے کا باعث بھی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت سوشل میڈیا سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارا جائے، جب کہ وہ گزارا گیا وقت مثبت رُخ پر نہ ہو طالب علم نوجوان اس سے سب سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ تعلیم کا خرچ ہوتا ہے، جعلی اکائونٹ کے ذریعے غلط راستے پر نکل جاتے ہیں، بلیک میلنگ کا شکار ہوتے ہیں، بے حیائی کے کھلے اظہار کے عادی ہو کر ناشائستہ زبان کا استعمال کرتے ہیں، اپنے قریبی رشتے داروں خاص طور سے بہن بھائی اور والدین سے دور ہوجاتے ہیں۔ اُن کی ذہنی اخلاقی اور جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ صورت حال اتنی سنگین ہوجاتی ہے کہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ قتل اور خودکشی جیسے عمل کی طرح راغب ہوتے ہیں بلکہ کتنی ہی حقیقی کہانیاں موجود ہیں۔ جہاں پب جی جیسے ویڈیو گیم کے عادی ہو کر اپنے ہی قریبی رشتوں کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ نوجوان سوشل میڈیا کے پیچھے جس قدر جذباتی انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں اسی قدر اخلاقی قدروں کو پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں، اپنائیت اور خلوص ختم ہوتا جارہا ہے۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

اتنی ساری منفی باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ سوشل میڈیا سراسر برائی کی جڑ ہے، کوئی بھی ٹیکنالوجی اپنے آپ میں برائی نہیں ہوتی یہ تو اس کے استعمال پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ دراصل آج ہمارے بچے اور نوجوان خاص طور سے اس کے گرداب میں اس بری طرح پھنس رہے ہیں کہ ایسا دیکھ کر ہم اس کی مثبت رخ پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتے۔ یہ انتہائی اہم بات ہے۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال میں ایک اہم بات کسی اچھی بات اور نصیحت کو بتانا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہی ہونی چاہیے کہ بات درست بھی ہو اور جس پیج سے آرہی ہو وہ بھی مثبت ہونا لازمی ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ کوئی فلمی اداکار یا گلوکار اسلام کے بارے میں سو خلاف اسلام باتیں کرکے کوئی مثبت بات کرے تو ہم آئو بھگت کرتے نہیں تھکتے۔ جان لیں کہ آپ کے لائیک شیئر اور کمنٹ بھی ایک اہم حمایت اور تائید ہوتی ہے لہٰذا محض ایک اچھی پوسٹ سے متاثر ہو کر کسی غیر اسلامی رویے رکھنے والے پیج یا فرد کی حمایت آپ کے اعمال نامے میں سنہرے حروف سے نہیں لکھی جائے گی۔ تحقیق کے بغیر کسی خبر خاص طور سے حدیث کو پھیلانا افسوس ناک ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے‘‘۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلا دے‘‘۔

یہ دور انتہائی نازک دور ہے، موبائل اور انٹرنیٹ بذات خود غلط نہیں ان کا غلط استعمال کرنا غلط ہے۔ اس کو جلد بازی اور جذباتیت کے ساتھ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دل و دماغ میں یہ بات دہراتے ہوئے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے دعائوں کے ساتھ استعمال کریں اور دعائوں کے ساتھ ہی اختتام کریں۔ اچھے رویے، مثبت نظریات اور سوچ کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا تجارت پیشہ ورانہ صلاحیت کو نکھارنے اور بڑھانے کے لیے زبردست امکانات رکھتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق سوشل میڈیا سے براہ راست آن لائن اشتہارت کے ذریعے آمدنی میں ستر سے اسی فی صد تک اضافہ ممکن ہے۔ قابلیت صلاحیت میں اضافے کے لیے کچھ خرچ کیے بغیر انٹرنیٹ سے کورس حاصل کیے جاتے ہیں۔ تعلیم اور زبانوں کو سیکھنے کے لیے بھی یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ پیچیدہ تعلیمی مواد کا حصول بھی باآسانی ممکن ہے۔ پھر یہ ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔ باآسانی استعمال ہوسکتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی اور اپنے بچوں خاص کر نوجوانوں کو اس طرح توجہ دلائیں اور غلط استعمال کے مسائل اور مشکلات سے آگاہ کریں۔