نریندر مودی نے اپنے دور اقتدار میں ہندوستان کے نام نہاد جمہوری اور سکولر چہرے کو بے نقاب کرکے ہندوستان کا اصل چہرا دنیا کو دکھایا ہے۔ مودی سرکار نے ہندوتوا سوچ اور آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کھلم کھلا ایسے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں ہندوستان کے اندر پہلے سے موجود بغاوتوں کو مہمیز ملی، ہندوستان کے اندر پیسے ہوئے عوام اور اقوام جو اس طرح کے حالات کے آنے سے قبل ان خدشات کا اظہارکرکے آزادی کی بات کررہے تھے ان کو مودی کے اقدامات سے یقین ہو چلا کہ اب ہندوستان کے ساتھ رہنے کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب پوری شد ومد کے ساتھ آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں اور ان کا موقف اور خدشات درست ثابت ہوئے ہیں۔ بی جے پی دراصل سنگٹھن اور شدھی تحریک ہی کا تسلسل ہے جس کا نعرہ ہے ہند ہندو ہندوستان، یعنی ہندوستان کے اندر بسنے والے سارے مذاہب کے لوگوں کو زبردستی ہندو بنانا ہے یا ان کو ہندوستان سے نکال دینا ہے۔ اس حوالے سے مودی سرکار نے قانون سازی بھی کر ڈالی اور سرکاری سرپرستی میں آر ایس ایس کے غنڈوں پر مشتمل دستے تشکیل دیے، جنہوں نے مساجد، مندروں اور گرجا گھروں کو آگ لگائی اور کھلے بندوں کہا کہ اب یہاں مندر تعمیر ہوںگے اگر یہ کہا کہ مودی نے پورے ہندوستان کو اقلیتوں کے لیے گرم توا بنادیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
ہندوستان کی بقا کو خطرے میں دیکھ کر ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں نے سرجوڑ لیے ہیں، ہندوستان میں اگلے برس مئی 2024 کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں اس حوالے سے ہندوستان کے شہر بنگلور میں 26جماعتوں نے نریندر مودی سے ہندوستان کے عوام کی گلو خلاصی کے لیے انڈیا نیشنل ڈویلپمنٹ انکلیوسیو الانس (انڈیا) قائم کیا ہے، ہندوستان کی مین اپوزیشن جماعت کانگریس کی قیادت بطور خاص اس اجلاس میں شریک رہی ہے۔ دو روز تک جاری رہنے والے اجلاس میں جہاں دیگر اہم فیصلے ہوئے وہاں یہ فیصلہ بھی ہوا ہے کہ اگر ہندوستان بچانا ہے تو نریندر مودی کو ہٹانا ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ملکا ارجن کھڑگے نے واشگاف اور دوٹوک موقف اختیارکرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی نے عالمی سطح پر قائم ہندوستان کا تشخص مٹادیا ہے۔ آمدہ انتخابات میں اگر موودی کو شکست نہ ہوئی تو ہندوستان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوجائیںگی۔ 26جماعتوں نے اصولی طور مل کر چلنے کا فیصلہ کیاہے اور یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ مل کر انتخابات میں جائیںگی، مزید جزیات طے کرنے کے لیے کمیٹی قائم ہوئی ہے جس کو انتخابات میں سیٹوں کی تقسیم کرنی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ 26جماعتوں پر مشتمل اتحاد اپنا انتخابی ایجنڈا پاکستان مخالفت کے بجائے ہندوستان بچائو بنا رہا ہے، اس سے قبل یہ ہوتا رہاہے کہ ہندوستان کے اندر انتخابات جیتے کے لیے پاکستان خلاف مہم چلائی جاتی تھی اور عوام کے جذبات سے کھیل کر ووٹ حاصل کیے جاتے تھے، مودی مخالف اتحاد نے ہندوستان کے اندر مہنگائی بے روزگاری اور خاص کر مودی نے ہندوستان کاجو امیج تباہ کیا ہے اس کی بحالی ہے۔ اگرچے نریندر مودی نے اس اتحاد کے خلاف باتیں کیں ہیں اور اس اتحاد کو مفاد پرست ٹولے کا خواب قرار دیا ہے۔
مودی آمدہ انتخابات بھی جتنے کے لیے پاکستان مخالف انتخابی ایجنڈا دے گا۔ بعض اہل دانش کی رائے ہے کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کی یونین میں ضم کردیا ہے اور آزاد کشمیر پر حملہ بھی کرسکتا ہے اور بعض رائے یہ بھی کہ پاکستان پر حملہ کرکے رائے عامہ منظم کرسکتا ہے آنے والے انتخابات مودی جی کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ نریندر مودی کو آمدہ انتخابات میں ٹف ٹائم ملنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ مودی انتخابات کو جتنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہے۔
نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کی یونین میں ضم کرکے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات نارمل ہوجائیںگے اور وہاں تعمیر وترقی کا نیا دور شروع ہوگا اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا، چار برس بیت جانے کے بعد حالات پہلے سے بھی خرا ب ہیں، ملازمتیں دینا تو دور کی بات ہے جو کشمیری مسلمان ملازمتوں میں تھے ان کو بھی نکال دیا ہے، حالات کی سنگینی کا اندازہ اس لگائیں کہ اب ہندوستان نے فوج کے ساتھ کمانڈو یونٹ بھی تعینات کرنا شروع کردیے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوچکے ہیں۔
نریندر مودی نے گزشتہ انتخابات میں جو اہداف دیے تھے وہ تو حاصل ہوگئے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں ہندوستان کو اور ہندوستان کے عوام کو کیا فائدہ پہنچا ہے۔ جو ایجنڈا مودی نے آر ایس ایس کا دیا تھا اس پر عمل درآمد سے ہندوستان کے اندر اضطراب میں اضافہ ہوا، عالمی سطح ہندوستان کو سبکی ہوئی ہندوستان کے جمہوری اور سیکولرازم کی قلعی کھلی۔ کشمیر کے حوالے سے بھی جو کیا گیا اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہندوستان کے حصے میں آیا۔ آنے والے دنوں میں حالات کیا روخ اختیار کرتے ہیں یہ حکومت اور اپوزیشن کی مہم پر منحصر ہوگا۔ سخت مقابلے کے امکانات ہیں۔