تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد

784

سچ تو یہ ہے کہ لکھنے کے لیے آس پاس بہت سارے موضوعات ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ایسا موضوع ہے جو حساس دل اور دماغ کو جھنجھوڑ ڈالے۔ ایسے میں جب انسان کسی موضوع پر لکھنے کے لیے بیٹھتا ہے تو ذہن مائوف ہونے لگتا ہے کہ کس موضوع پر لکھا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے؟ ہفتہ ٔ رفتہ چند دن کراچی میں گزارنے کا موقع میسر آیا۔ جیکب آباد کی شدید ترین اور جھلسا دینے والی گرمی کے مقابلے میں کراچی کا موسم بے حد خوش گوار پایا۔ بس اللہ کی قدرت کے رنگ ہیں۔ کراچی جانے سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ محترمہ ادی فریال تالپور کو درجنوں بڑی بڑی گاڑیوں کے جلوس، سخت حفاظتی انتظامات کے تحت جیکب آتے دیکھا۔ محترمہ جس جس روڈ راستے سے گزریں وہاں پر صفائی ستھرائی کے مثالی انتظامات الگ سے کیے گئے تھے۔ ہماری ضلعی انتظامیہ جو عام دنوں میں خواب غفلت میں مگن ہوتی ہے ایسے ہر موقع پر خوب چوکنا ہوجاتی ہے۔ ادی فریال تالپور کے جلوس کا تام جھام دیکھ کر تو کہیں سے بھی یہ دکھائی نہیں دیتا تھا کہ ہم ایک مقروض ترین ملک کے باشندے ہیں۔ چلیے فریال تالپور تو ایک سیاست دان ہیں اور مان لیتے ہیں کہ ان کا یہ انداز اور وتیرہ اختیار کرنا ہمارے ہاں کی ملکی سیاست کی مجبوری ہے۔ ہمارے معاشرے میں صدیوں سے پوشیدہ احساس کمتری کو دکھاوے اور نمود و نمائش کے اس انداز میں اظہار سے تسکین حاصل ہوتی ہے اور عوام بھی اس دکھاوے سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن افسوس ان بے حد پڑھے لکھے بیوروکریٹس کو دیکھ کر ہوتا ہے جو جب بھی خوش قسمتی سے اپنے دفاتر سے شہر کے دورے پر نکلتے ہیں تو ان کے آگے اور پیچھے بھی ایک یا دو تین نہیں بلکہ درجنوں بے مصرف کی گاڑیاں ہوتی ہیں، کیا ایک غریب ملک کی نوکر شاہی کو اس طرح کی اوچھی حرکات و سکنات زیب دیتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں، لیکن افسوس صد افسوس! کہ میرے ضلع سمیت ہر ضلع میں اسی طرح سے ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق تو ہمارے بے جا قسم کے اظہار برتری کے پس پردہ درحقیقت ہمارا قرنوں پر محیط احساس کمتری پوشیدہ ہے جو ہمارے دل اور دماغ پر کچھ اس انداز سے حاوی ہوچکا ہے کہ وہ بس اب اپنے اظہار کا موقع چاہتا ہے۔

راقم کراچی میں اپنے ایک کزن کی دو صاحبزادیوں کی شادی میں شرکت کی غرض سے گیا تھا۔ کزن کی صاحبزادیوں کی شادی جن خاندانوں میں ہوئی ہے وہ بھی میرے کزن کی طرح متوسط طبقے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس موقع پر باوجود تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کے شادی کے موقع پر جس قدر اسراف و تبذیر اختیار کیا گیا اسے دیکھ کر دل کو ٹھیس اس لیے پہنچی کہ یہ سب کچھ محض دکھاوے اور نمودو نمائش کے لیے کیا گیا تھا۔ کزن نے برملا تسلیم کیا کہ وہ دل سے نہ چاہتے ہوئے بھی صاحبزادیوں کی شادی پر پرانی رسوم اور رواج کو بجا لانے پر اتنا زیادہ خرچ صرف اس لیے کررہے ہیں کہ خاندان اور رشتے داروں میں ان کی ناک نہ کٹ جائے۔ دوسری جانب سے بھی شادی پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا۔ تقریبات مہندی، نکاح اور ولیمہ وغیرہ مہنگے ترین شادی ہال بک کراکے منعقد کی گئی تھیں۔ گوناگوں ڈشز اور مشروبات کا اہتمام اور شرکا کے ہاتھوں ان چیزوں کا بے دردی سے زیاں دیکھ کر دل افسردہ سا ہوگیا کہ ہمارا دین اسلام تو ہمیں سادگی کا درس دیتا ہے لیکن ہم کس بے سمت راستے پر چل پڑے ہیں؟ ایک ایسا راستہ جس کی کوئی منزل نہیں ہے، محض رسوم و رواج پر لاکھوں روپے کا بے جا اور فضول خرچہ دیکھ کر بے ساختہ مرزا غالب کا یہ لافانی شعر ذہن میں در آیا۔

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا

ہم بھی بے جا رسوم کے باعث مجبور محض بن کر رہ گئے ہیں۔ کزن نے اس موقع پر یہ ’’انکشاف‘‘ بھی کیا کہ شادی پر میرے لگ بھگ 20 لاکھ روپے صرف ہوئے ہیں اور میں نے کمیٹیاں ڈال کر، قرض لے کر اتنا خرچہ کیا ہے۔ صرف اس لیے کہ میری ناک خاندان میں اونچی رہ جائے۔ اب مجھے آئندہ کئی سال یہ کیا گیا خرچہ ذہنی طور پر ڈسٹرب رکھے گا۔ میں اس موقع پر یہی سوچتا رہ گیا کہ مچھلی ہمیشہ اپنے سر کی جانب سے ہی سڑتی ہے جب تک ہمارے حکمران نہیں سدھریں گے ہمارا یہی ابتر حال رہے گا۔