اَن پڑھ سرجن کی کہانی ابن آدم کی زبانی

917

اے ابن آدم اگر انسان کو شوق اور جستجو ہو تو وہ بغیر علم کے بھی آگے بڑھ سکتا ہے، ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہر نوجوان میں شوق اور جستجو نہیں ہوتی۔ سول اسپتال میں ہڈی کے وارڈ میں ایک بہت سینئر ٹیکنیشن ہوتا تھا اُس کو عوام سرجن لال کہتے تھے، وہ سرجن کی غیر موجودگی میں ہڈیوں کے آپریشن تک کر دیتا تھا، زندہ ہے یا نہیں مجھے نہیں معلوم، مگر ہم نے اُس کو کوئی مقام نہیں دیا۔ ہمارے ملک میں سفارشی نااہل کی عزت ہوتی ہے، اُس کو کام آئے یا نہ آئے، اسی طرح عباسی اسپتال میں بھی ایک ماہر ٹیکنیشن تھا جو ایمرجنسی وارڈ میں ہوتا تھا، میرے بڑے بیٹے ارسلان کے سر میں اندھی گولی آکر لگی خون نہیں نکلا، اوپر سر کی ہڈی میں پھنس گئی، کراچی کے سیاسی حالات بے حد خراب تھے، متحدہ اور حقیقی آپس میں لڑ رہے تھے، میں اپنے بیٹے ارسلان کو لے کر عباسی آیا تو کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا، میں پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا ایک جاننے والے مل گئے اور وہ اُس ٹیکنیشن کو پکڑ کر لے آئے اُس نے بیٹے کا ایکسرے دیکھا اس کو OT کے بیڈ پر لیٹایا نہ بے ہوش کیا، اوزاروں کی مدد سے 15 منٹ میں اس نے گولی میرے ہاتھ پر رکھ دی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اس کو کچھ پیسے دینا چاہے مگر اس نے انکار کردیا۔ ایسے ماہر ٹیکنیشن کی کوئی عزت نہیں۔
اب چلتے ہیں اُس اَن پڑھ سرجن کی طرف جس کو اُس کے ملک اور قوم نے وہ عزت دی ہے آپ کو پڑھ کر حیرت ہوگی۔ کالم نگار سرور رائو نے اس کا ذکر اپنے کالم میں کیا ہے۔ کیپ ٹائون کی میڈیکل یونیورسٹی کو طبی دنیا میں ممتاز حیثیت حاصل ہے، دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن اس یونیورسٹی میں ہوا تھا۔ اس یونیورسٹی نے تین سال پہلے ایک سیاہ فام شخص کو ماسٹر آف میڈیسن کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ 2003ء کی ایک صبح مشہور عالم سرجن پروفیسر ڈیوڈنیٹ نے یونیورسٹی آڈیٹوریم میں اعلان کیا ہم آج ایک ایسے شخص کو میڈیسن کی اعزازی ڈگری دے رہے ہیں جس نے دنیا میں سب سے زیادہ سرجن پیدا کیے جو ایک غیر معمولی استاد اور سرجن ہے، جو زندگی میں کبھی اسکول نہیں گیا جو انگریزی پڑھ سکتا تھا مگر لکھ نہیں سکتا لیکن اس شخص نے میڈیکل سائنس اور ڈاکٹرز کو حیران کردیا۔ پروفیسر نے ہملٹن کا نام لیا اور پورے حال نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا۔ یہ اس یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال تھا۔
ہملٹن (Hamiltan) کیپ ٹائون کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ والد چروا تھا، بچپن میں اس کا والد بیمار ہوگیا تو وہ کیپ ٹائون آگیا۔ ان دنوں کیپ ٹائون یونیورسٹی میں تعمیرات جاری تھیں وہ وہاں مزدوری کرنے لگا تعمیرات کا سلسلہ ختم ہوا تو وہ یونیورسٹی میں مالی بھرتی ہوگیا۔ پھر اس کی زندگی میں ایک موڑ آیا۔ پروفیسر رابرٹ جوئز جو زرافے پر تحقیق کر رہے تھے کہ جب زرافہ پانی کے لیے گردن جھکاتا ہے تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا۔ انہوں نے آپریشن ٹیبل پر ایک زرافہ لٹایا اسے بے ہوش کیا لیکن زرافے نے گردن ہلا دی۔ پروفیسر آپریشن سے باہر آئے سامنے ہملٹن گھاس کاٹ رہا تھا۔ پروفیسر نے اُسے بلایا اور زرافے کی گردن پکڑنے کا حکم دیا۔ ہملٹن نے گردن تھام لی اور کھڑا رہا یہ آپریشن 8 گھنٹے جاری رہا۔ دوسرے دن پھر پروفیسر نے اُسے پھر بلالیا وہ آیا اور زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا روٹین بن گیا وہ یونیورسٹی آتا 8 سے 10 گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑتا اور اس کے بعد وہ گھاس کاٹتا تھا۔ وہ کئی ماہ دوہرا کام کرتا رہا اس نے اس ڈیوٹی کا اضافی معاوضہ طلب کیا اور نہ شکایت کی۔ پروفیسر رابرٹ اس کی استقامت اور اخلاص سے متاثر ہوگیا اور اس نے اسے مالی سے لیب اسسٹنٹ بنادیا۔ وہ اب یونیورسٹی آتا آپریشن تھیٹر پہنچتا اور سرجنوں کی مدد کرتا۔
1958ء میں اس کی زندگی میں دوسرا اہم موڑ آیا، اس سال ڈاکٹر برنارڈ یونیورسٹی آئے اور انہوں نے دل کی منتقلی کے آپریشن شروع کردیے۔ ہملٹن ان کا اسسٹنٹ بن گیا ان آپریشنوں کے دوران وہ اسسٹنٹ سے ایڈیشنل سرجن بن گیا۔ اب ڈاکٹر آپریشن کرتے اور بعد میں ٹانکے ہملٹن لگایا کرتا، وہ انتہائی شاندار ٹانکے لگاتا تھا وہ سرجنوں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا اب وہ جونیئر ڈاکٹرز کو سکھانے لگا اب وہ یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت بن گیا۔ 1970ء میں جگر پر تحقیق شروع ہوئی، آپریشن کے دوران اُس نے جگر کی ایک ایسی شریان دریافت کی جس کی وجہ سے جگر کی منتقلی آسانی ہوگئی۔ میڈیکل کے شعبے کے بڑے بڑے دماغ حیران رہ گئے، وہ میڈیکل ہسٹری کا پہلا اَن پڑھ استاد اور پہلا اَن پڑھ سرجن تھا جس نے زندگی میں 30 ہزار سرجنز کو ٹریننگ دی۔ وہ 2005ء میں فوت ہوا تو اسے یونیورسٹی میں دفن کیا گیا اور اس کے بعد یونیورسٹی سے پاس آئوٹ ہونے والے سرجنز کے لیے لازم قرار دیا گیا وہ ڈگری لینے کے بعد اس کی قبر پر جائیں تصویر بنوائیں۔
اے ابن آدم یاد رکھنا دنیا کی ہر ملازمت کا کوئی نہ کوئی معیار ہوتا ہے اور یہ ملازمت صرف اس شخص کو ملتا ہے جو اس معیار پر پورا اُترتا ہے۔ جب کہ کام کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ میں اگر آج چاہوں تو چند گھنٹوں میں دنیا کا کوئی کام شروع کرسکتا ہوں اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس کام سے باز نہیں رکھ سکے گی۔ ہملٹن اس راز کو پا گیا تھا لہٰذا اس نے ملازمت کے بجائے کام کو فوقیت دی۔ یوں اس نے میڈیکل سائنس کی تاریخ بدل دی۔ اگر وہ سرجن کی ملازمت کے لیے ادرخواست دیتا تو کیا وہ سرجن بن سکتا تھا؟ کبھی نہیں لیکن اس نے کھرپا نیچے رکھا اور زرافے کی گردن تھامی اور سرجنوں کا سرجن بن گیا۔ انسان چاہے تو کیا نہیں کرسکتا۔