ٹیکس کا پربت

701

سیاسی گفتگو سویٹ ڈش بن گئی ہے پالش کرانے والا ہو یا پالش کرنے والا سبھی سیاست پر بے تکان بولتے ہیں مگر جب سے بجٹ کی آمد کا شور وغل برپا ہوا یہ موضوع سمٹ گیا تھا، مگر بجٹ کے آنے کے بعد اب اس کے اثرات پر بحث ہو رہی ہے جہاں دو چار آدمی جمع ہوتے ہیں بجٹ زیر غور آجاتا ہے، اس وقت بھی کچھ لوگ بجٹ پر اظہار خیال کررہے تھے ایک شخص نے کہا یہ بجٹ جرمانوں بھرا ہے تو ہم نہ چاہنے کے باوجود رک گئے اور اس شخص سے کہا کہ ہمارا ملک بھیدوں بھرا ہے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت، مادر ملت فاطمہ جناح کی وفات یا وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت، غرض یہ کہ کوئی بھی قومی المیہ ہو بھیدوں بھرا ہے اور اس کی ایک خاص وجہ ہے جسے سبھی

جانتے ہیں، مگر تم موجودہ بجٹ کو جرمانوں بھرا بجٹ کس حوالے سے کہہ رہے ہو اس نے کہا کہ خبروں میں ایسے بہت سے جرمانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ جن کی عدم ادائیگی پر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا، فائلر اور نان فائلر پر بھی جرمانے ہوں گے حالانکہ عام آدمی فائلر اور نان فائلر کے معانی بھی نہیں جانتا۔

میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچت کر کے اپنے اکائونٹ میں جمع کراتا ہوں تاکہ سال کے بعد گندم ،چاول، مختلف دالیں اور دیگر ضروریات زندگی خرید سکوں، عموماً یہ بچت دو اڑھائی لاکھ ہوتی ہے، مگر اب سال کے بعد اپنے اکائونٹ سے یہ رقم نکالوں گا تو جرمانے کے طور پر بارہ سے اٹھارہ سو روپے ادا کرنے پڑیں گے بلکہ بینک خود ہی نکال لے گا، لوگ کہتے ہیں کہ بجٹ اعدادو شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے مگر یہ آدھا سچ ہے، پورا سچ یہ ہے کہ ہمارا ہر ادارہ گورکھ دھندا ہی ہے، سیونگ اکائونٹ کھولنے کا مطلب اپنی بچت کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے مگر بینک چھے ماہ بعد ایسے سیونگ اکائونٹ بند کر دیتے ہیں جن سے چھے ماہ تک کوئی پیسہ نہ نکالا گیا ہو، اور یہ سارا گورکھ دھندا عام آدمی کو پریشان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

افغانیوں کو شیخ سعدی کے دور سے ہی کم فہم اور کج کلاہ سمجھا جاتا ہے حالات اور واقعات گواہ ہیں کہ وطن عزیز کے حکمرانوں سے زیادہ کم فہم اور کج کلاہ کوئی نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہمارے دانشور بھی اس معاملے میں کسی سے کم نہیں۔ ہمارے ہاں پشتو زبان کا مذاق اڑانا ایک عام بات ہے اور اپنی زبان دانی پر فخر کرنا خاص بات ہے مگر آج تک اردو دان طبقہ کمربند ڈالنی کے لیے کوئی مناسب لفظ نہ ڈھونڈ سکا جبکہ پشتو بولنے والوں نے اسے باقاعدہ ایک نام دیا ہے پشتو میں کمر بند پرتغاک کہتے ہیں اور پرتغاک ڈالنے والی چیز کو پرتغاک ڈکے (یعنی کمربند سلائی) کہتے ہیں، حالانکہ ہم بھی پختونوں کی طرح سرمہ سلائی کی

نسبت سے کمر بند ڈالنی کو کمر بند سلائی کہہ سکتے ہیں، مگر من حیث القوم ہم سوچنا گوارا ہی نہیں کرتے بس سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔

کئی ماہ سے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے اس کی ہر شرط مان رہے ہیں مگر وہ اپنی پہلی شرط منوا کر اگلی شرط سامنے رکھ دیتا ہے اگر حکمران طبقہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے بجائے افغان حکومت کی طرح کرپٹ افراد سے قرض وصول کرنے پر توجہ دے تو آئی ایم ایف کی رسوا کن شرائط پوری کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے، مگر المیہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کے تمام افراد ہی کرپٹ ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ کوئی بھی چور دوسرے چور کے ہاتھ کاٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ عدالت عظمیٰ جو از خود کارروائی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اور ایسا کوئی موقع نہیں گنواتی جو اس کی برتری و بالا دستی کا مظہر ہو اس معاملے میں پیش دستی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا مگر جو لوگ قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر پی گئے ہیں ان کے خلاف کبھی از خود کارروائی نہیں کرتی حالانکہ اسے اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ عدالتوں کی بے توقیری کا سب سے بڑا سبب یہ کرپٹ لوگ ہی ہیں، جب تک قرض کی رقم وصول کرنے پر سختی سے عملدرآمد نہیں کیا جاتا عدلیہ بے توقیر اور حکومت رسوا ہی رہے گی۔

یہ جانتے ہوئے ہم پانیوں میں اترتے ہیں
ڈرنے والے بھنور کے قریں نہیں جاتے