ایک اہم مسئلہ یہ ہے: ہم ماضی کے برسوں کے قومی میزانیوں کا جائزہ لیں تو ہر بجٹ میں ہمارے اخراجات کا تخمینہ ہماری آمدنی کے تخمینے سے زیادہ ہوتا ہے، رواں بجٹ کے اعلان کردہ آمد وخرچ کے تخمینے میں بھی تقریباً پانچ ہزار ارب روپے کا خلا ہے، یہ رقم کہاں سے آئے گی، مزید قرض لینے کے سوا اس کی کوئی اور حکمتِ عملی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہماری انتظامیہ کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے، ہماری معیشت اب اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں ہے، ہم آئے دن نئے نئے ادارے قائم کرتے ہیں، ان کے لیے عالی شان عمارتیں، گاڑیوں کے فلیٹ، بڑے بڑے مشاہرات پر مشتمل عملہ، الغرض یہ ادارے آخر میں اثاثہ بننے کے بجائے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بن جاتے ہیں، کوئی کام ہو یا نہ ہو، ان کے مصارف قومی بجٹ کا حصہ بن جاتے ہیں، یعنی یہ ایسی گائے ہوتی ہے جو دودھ تو نہیں دیتی، لیکن رکھوالی کے لیے اُس کے ناز اٹھانے پڑتے ہیں، ایسے کئی بے فیض ادارے آج بھی ہمارے ملک میں موجود ہیں۔
کسی یونیورسٹی میں اس مسئلے پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھوایا جائے کہ نیب کے قیام سے پاکستان کو نفع زیادہ ہوا یا نقصان، قیام سے لے کر آج تک اس ادارے پر قومی خزانے سے کتنی رقم خرچ ہوئی اور درحقیقت قومی خزانے میں اس ادارے کے ذریعے کتنی رقم آئی، سابق چیئرمین جھوٹے دعوے کرتے تھے، دراصل پرویز مشرف نے اس کا قیام سیاست دانوں کی بلیک میلنگ اور ان کو زیرِ دام لانے کے لیے کیا تھا، بد نیتی روزِ اول سے عیاں تھی، اس لیے اس ادارے نے نظام کو مفلوج کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قارئین غور کریں: ہمارے ہاں نیچے سے اوپر تک عدالتی نظام موجود ہے، لیکن اس کے ہوتے ہوئے نیب، انٹیلی جنس، انویسٹی گیشن، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن، سی آئی اے، سی ٹی ڈی، وفاقی اور صوبائی محتسب، بینکنگ محتسب حتیٰ کہ خواتین محتسب کا ادارہ بھی موجود ہے، اتنے اداروں کی کیا ضرورت ہے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وزارتوں کی طرح احتساب کے ایک ہی ادارے میں ان شعبوں کے لیے ڈیسک بنادیے جائیں، شاہد خاقان عباسی کہتے رہتے ہیں: ’’نیب اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ان اداروں میں سے ہر ایک کا دائرۂ کار کیا ہے، ان کی حدود کیا ہیں، ایسا تو نہیں کہ اُووَر لیپنگ ہورہی ہے، معلوم ہوا ہے: بعض اوقات کسی کارنامے کا کریڈٹ لینے کے لیے اداروں میں کشمکش بھی چلتی رہتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ انتظامی حکم نامے یا قانون سازی کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وزارتوں اور ڈویژنوں کی تعداد کم کی جائے، مخلوط حکومتوں میں یہ تعداد بہت بڑھ جاتی ہے، ارکانِ پارلیمنٹ کے تناسب سے وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی زیادہ سے زیادہ تعداد متعین ہے، لیکن جب امیدواروں کی تعداد کے مقابلے میں عہدے کم رہ جائیں، تو پھر وفاقی اور صوبائی کابینہ میں وزیروں مُشیروں اور معاونینِ خصوصی کے نام پر نئے عہدے تخلیق کیے جاتے ہیں اور کابینہ کا حجم بہت بڑا ہوجاتا ہے۔ ہماری کابینہ امریکی کابینہ سے بھی بڑی ہے، جبکہ امریکا اپنی مادّی وحربی طاقت، عالمی اداروں اور عالمی پالیسیوں پر کنٹرول کے سبب بالواسطہ طور پر پوری دنیا پر حکومت کر رہا ہوتا ہے۔ چونتیس کروڑ آبادی پر مشتمل امریکا میں عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد نو، ایک ارب بیالیس کروڑ آبادی پر مشتمل بھارت میں زیادہ سے زیادہ تعداد چونتیس ہے، جبکہ تئیس کروڑ آبادی پرمشتمل پاکستان میں یہ تعداد سترہ ہے، اُن کی شان وشوکت، مشاہرے، ایک سے زائد قیمتی پلاٹ، پینشن اور دیگر مراعات بھارتی عدالت عظمیٰ کے ججوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اورحال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ میں عوام کے پچپن ہزار مقدمات زیرِالتوا ہیں، اس کے برعکس آئے دن عدالت عظمیٰ میں سیاسی مقدمات چلتے رہتے ہیں تاکہ ٹیلی ویژن پر ٹِکر چلیں، میڈیا میں رونقیں لگی رہیں اور حاصل کچھ بھی نہ ہو۔
موجودہ چیف جسٹس نے عدالت عظمیٰ کو سیاست کے لیے استعمال کیا، اپنے ہم خیال جج صاحبان کا ایک گروپ بنایا، اہم مقدمات کے ہر بینچ میں وہی نظر آنے لگے، اس سے عدالت عظمیٰ میں تفریق نمایاں ہوئی۔ چیف جسٹس کو تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کرنے کا شوق بہت زیادہ ہے، وہ تقسیمِ اختیارات کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ پھر عالی مرتبت جج صاحبان کے خاندانوں کی خواتین بھی سیاست میں ملوّث ہوئیں اور ان کے اثر انداز ہونے کے شواہد سامنے آئے۔ عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ منصب کا تقاضا یہ تھا کہ اس مسئلے کی تحقیق کی جائے، تہہ تک پہنچ کر ادارے کی حرمت کو بحال کیا جائے، مگر جج صاحبان نے قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر تحقیق وتفتیش کے اس عمل کو روک دیا، ہم نے پہلے بھی لکھا تھا: آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا قانونی اور اخلاقی پہلو ایک الگ مسئلہ ہے اور ان آڈیو ویڈیو کلپس کا جو متن ہے، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، دونوں کو آپس میں خلط ملط کر کے پتلی گلی سے نکل جانا منصبِ عدالت کے شایانِ شان نہیں ہے، ہم نے اس کی مثال دی تھی: ’’ایک شخص ریوالور سے کسی کا قتل کرتا ہے، تو سارے مسئلے کا محور اس امر کو بنانا کہ قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ قانونی تھا یا غیر قانونی اور اس کی آڑ میں اصل جرم کو چھپا دینا اور مجرم کو بچالینا روحِ عدل کے منافی ہے۔ لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کو فعال کیا جائے تاکہ آئندہ عدالتی معاملات میں خاندانی مداخلت کا سدِّباب ہو، وزیر علی صبا لکھنوی نے کہا ہے:
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
یہ بات ہے تو آئیڈیل کہ سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہ چلائے جائیں، مگر پاکستان میں یہ سلسلہ رائج رہا ہے، لیکن جب پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ مرحوم نے 2019 میں آرمی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کی سزائوں کو معطل کیا تو پی ٹی آئی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں اس کے خلاف اپیل دائر کی، عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد موقوف کردیا اور کئی سال گزرنے کے باوجود یہ حکمِ امتناع آج بھی قائم ہے۔ لیکن چونکہ 9مئی کے سانحے کا تعلق طبقۂ اشرافیہ سے ہے، اس لیے شام کو پٹیشن دائر ہوئی، پٹیشنر کے وکلا کی چیف جسٹس سے خصوصی ملاقات ہوئی اور اگلی صبح سماعت شروع ہوگئی، چیف جسٹس نے یہ بھی ہدایت دی کہ اُن نازک مزاج ملزمان کی خوراک کا اچھا خیال رکھا جائے، اُن کو اچھا ماحول فراہم کیا جائے اور مطالعے کے لیے کتابیں بھی فراہم کی جائیں، الغرض حقوقِ انسانی بھی بہت یاد آئے، اس پر وی لاگرز طلعت حسین اور جاوید چودھری نے پھبتی کسی: ’’جج لاہوری، ملزمان لاہوری، وکلا لاہوری اور انصاف بھی لاہوری، عجب حسنِ اتفاق ہے‘‘، سلیم صافی نے کہا: ’’پہلے والے سزا یافتگان اس لیے چیف جسٹس کی نظرِ عنایت کے مستحق نہیں تھے کہ اُن کا تعلق پختون خوا سے تھا‘‘، حامد میر نے کہا: ’’میں اصولی طور پر سویلین کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے خلاف ہوں، لیکن کوئی گارنٹی دے سکتا ہے کہ سول عدالتوں میں تین چار ماہ میں مقدمات فیصَل ہوجائیں گے‘‘، اسی سبب ہم نے ایک ٹویٹ کیا تھا:
’’دو ملین سے زیادہ مقدمات پاکستانی عدالتوں میں شنوائی کے منتظر ہیں، عدالت عظمیٰ میں بھی تقریباً پچپن ہزار مقدمات زیرِ التوا ہیں، لیکن عدالت کی اپنی ترجیحات کے مطابق سیاسی مقدمات کی رونقیں لگی رہتی ہیں، کیونکہ اس پر ٹِکر چلتے ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں سیاسی مقدمات پر ہائی کورٹس اور عدالت عظمیٰ کی مداخلت جاری رہتی ہے، سماعت کو موقوف کردیا جاتا ہے یا مقدمہ جاری رہنے کی صورت میں فیصلے کا اعلان کرنے سے روک دیا جاتا ہے، ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے جاتے ہیں اور اعلیٰ عدالتوں سے تھوک کے حساب سے ضمانتیں دے دی جاتی ہیں حتیٰ کہ آئندہ کسی درج ہونے والے مقدمے کی بھی پیشگی ضمانت دے کر ضمانتوں کا عالمی ریکارڈ قائم کیاجاتا ہے، ایک رہنما کی ایک دن میں بائیس ضمانتیں منظور ہوئیں، اس کا ’’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں اندراج ہونا چاہیے۔ سی سی پی او لاہور کی تبدیلی کو روکنے کی استدعا میں سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات نکال لیے جاتے ہیں، پھر اُس پر دربار لگتا ہے، ایسا فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ عدالت کو خود کہنا پڑتا ہے: ’’اب 14مئی کا فیصلہ قابلِ عمل نہیں رہا، لیکن تاریخ کا حصہ بن گیا‘‘۔ ازروئے قانون مقدمات کے ٹرائل کی آخری کڑی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت ہے، لیکن اگر ماتحت عدالتوں کو معطل کردیا جائے تو نظامِ عدل ازخود معطل ہوجائے گا، اس سے تو بہتر ہے کہ ماتحت عدالتیں ختم کردی جائیں اور براہِ راست ہائی کورٹس میں ٹرائل ہوتاکہ مقدمات چل تو سکیں۔
الغرض ہمارا نظام اُووَر ہالنگ کا تقاضا کرتا ہے، اس کے لیے انقلابی سوچ درکار ہے، ہمارے نظام کا ٹیومر اب اینٹی بائیوٹک دوائوں یا حکیمی نسخوں کے ذریعے قابلِ علاج نہیں رہا، اس کے لیے مکمل آپریشن کی ضرورت ہے، نظام بنانے اور چلانے والوں میں یکسوئی اور وحدتِ فکر درکار ہے۔ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے: پی آئی اے، پاکستان اسٹیل اور ریلوے جیسے ادارے اب ریاست پر بوجھ ہیں، ٹیکس دہندگان کا پیسہ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے ان اداروں کے اربوں روپے کے خسارے پورا کرنے میں صرف ہوتا ہے، پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کے صحیح اعداد وشمار تو دستیاب نہیں ہیں، نیٹ پر تقریباً ستائیس سو ارب بتائے جارہے ہیں، بجلی اور گیس کے شعبے میں جو چوری ہوتی ہے، اسے’’لائن لاسز‘‘ کا خوبصورت عنوان دیدیا گیا ہے۔ اصول یہ ہونا چاہیے: بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں سے جتنی میگاواٹ بجلی واپڈا اور دیگر تقسیم کار اداروں کے نیٹ ورک میں ڈالی جاتی ہے، اتنی مالیت کی بلنگ ہو تاکہ پاور سیکٹرکے اداروں اور ان کو ایندھن فراہم کرنے والے اداروں کے واجبات بروقت ادا ہوں، مگر کوئی بھی حکومت آج تک اس پر قابو نہیں پاسکی، ایسا نظام دنیا میں کہیں بھی نہیں چل سکتا۔ جب ان قومی اداروں کی نجکاری کی بات کی جاتی ہے تو کئی سیاست دان اور سیاسی جماعتیں سدِّراہ بن جاتی ہیں، حالانکہ جدید دنیا میں یہ اصول مسلّم ہے: ’’حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے، بلکہ کاروبار کو باضابطہ بنانا ہے‘‘۔
نوٹ: یہ سطور منگل کو لکھی گئی ہیں، اس دوران ’’گرین پاکستان سیمینار‘‘ میں آرمی چیف کی تقریر کا شہرہ سنا، انہوں نے امید کی شمع روشن کی ہے اور مایوسی کی دھند چھٹ جانے کی بشارت دی ہے، اس پر آئندہ بات کی جائے گی۔