حال ہی میں توشہ خانہ کی رپورٹ نے سیاست دانوں کا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ رپورٹ کے مطابق سابقہ صدر آصف علی زرداری نے اپنی پانچ سال کی صدارت کے دوران 15 لاکھ 18 ہزار ڈالر کے تحفے بٹورے جن کی سالانہ اوسط تین لاکھ تین ہزار ڈالر ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 7 لاکھ 20 ہزار ڈالر کا فائدہ اٹھایا جن کی سالانہ اوسط ایک لاکھ 96 ہزار ڈالر بنتی ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے صرف نو ماہ حکومت کی لیکن اس نے اس قلیل مدت میں بھی اپنا کرپٹ حصہ پورا پورا وصول کیا اور پانچ لاکھ 82 ہزار ڈالر کے تحفے لیے جو سالانہ اوسط کے مطابق تقریباً سات لاکھ ڈالر بن رہے ہیں۔ یہ اوسطاً سب سے زیادہ ہے۔ میاں نواز شریف نے تحائف کی مد میں پانچ لاکھ 26 ہزار ڈالر کا فائدہ اٹھایا جس کی سالانہ اوسط ایک لاکھ 26 ہزار ڈالر بن رہی ہے۔ شوکت عزیز بھی تین لاکھ 8 ہزار ڈالر کے تحائف کا مالک بنا جن کی سالانہ اوسط 95 ہزار ڈالر ہے۔ میاں شہباز شریف جس نے اپنی مستعدی اور خدمت خلق کی خوب تشہیر کر رکھی ہے ’’تحائف ہڑپ کرنے کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے سے وہ کیوں محروم رہتا‘‘ بس اسی سوچ کے ساتھ اس صاحب نے بھی تین ہزار 800 ڈالر کے تحائف اپنی ملکیت میں لیے اور سالانہ اوسط سات ہزار 600 ڈالر کے حقدار قرار پائے۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی پر بھی توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں ہڑپ کرنے کا نیب میں مقدمہ درج ہوا بلکہ نیب ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے غیر قانونی طور پر گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔ جب ترکی کی خاتون اول نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے قیمتی ہار بھیجا جس کی نیلامی سے ہم کروڑوں روپے حاصل کر کے سلاب زدگان کی مدد کر سکتے تھے لیکن سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے معمولی رقم کے عوض یہ ہار اپنے نام کروا لیا اور اپنے گھر لے جا کر اپنی بیگم کے گلے کی زینت بنا دیا۔ یہ ادا ہونے والی معمولی رقم لاکھوں میں نہیں بلکہ بہت ہی معمولی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ایک معروف صحافی روف کلاسرا نے چند سال پہلے انکشاف کیا تھا کہ ان شہزادوں نے آپس کی ملی بھگت سے ایک انوکھا قانون بنایا جس کے مطابق صرف 16 ہزار روپے دے کر یہ ڈاکو سرکاری خزانے سے قیمتی سے قیمتی تحفہ اپنے گھر لے کر جا سکتے ہیں۔
پہلے مختصر سا جانتے ہیں کہ یہ توشہ خانہ ہے کیا چیز؟ توشہ خانہ ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدہ داروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔ غیر ملکی دورے کے دوران وہ ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور وطن واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ تحائف ہڑپ کرنے کے شوقین حکمرانوں نے ان کی وصولی کے قوانین بھی کافی نرم بنا رکھے ہیں۔ ان کے بنائے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا فرد اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے لیکن اگر قیمت 30 ہزار روپے سے زائد ہے تو انہیں مقررہ قیمت کا 50 فی صد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان تحائف میں قیمتی گاڑیاں، مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے کے زیورات، مختلف ڈیکوریشن پیسز، ہیرے جڑے قلم، قالین جیسی چیزیں شامل ہوتیں ہیں۔ برسر اقتدار لوگوں کے اپنے قائم کردہ قانون کے مطابق جو توشہ خانہ سے 50 فی صد ادائیگی سے وہ تحفہ اپنی ذاتی ملکیت کے لیے حاصل کر سکتے ہیں، انہوں نے تو اس خود ساختہ قانون کا بھی پاس نہ رکھا اور اونے پونے یا پھر مفت میں قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کیا۔
پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔ اسلامی لحاظ سے اصول ہے کہ کوئی بھی حکومتی عہدہ دار اپنے عہدہ کی وجہ سے حاصل کرنے والا تحفہ اپنے ذاتی تصرف یا ملکیت میں نہیں لا سکتا۔ وہ تحفہ بیت المال یا سرکاری خزانے کا حق ہے اور اس کا استعمال عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہی ہوگا۔ یہ قانون آپؐ نے مثال کے ساتھ اپنی حیات مبارکہ ہی میں واضح فرما دیا تھا۔ بخاری شریف کی حدیث مبارکہ کے مطابق ایک مرتبہ عامل زکوۃ نے زکوۃ کا مال جمع کروانے کے بعد تحائف کو اپنے ساتھ لے کر جانے کی کوشش کی تو آپؐ نے استفسار فرمایا کہ یہ مال تم الگ لے کر کیوں جا رہے ہو؟۔ اس عامل نے بتایا ’’مجھے یہ مال تحفے میں دیا گیا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا! ’’اگر تمہارے پاس عہدہ نہ ہوتا تو کیا تمہیں یہ تحائف ملتے؟ تمہیں یہ تحائف تمہارے حکومتی منصب کی وجہ سے ملے ہیں، لہٰذا یہ پوری قوم کی ملکیت ہیں‘‘۔ یہ فرما کر آپؐ نے وہ تحائف بیت المال میں جمع کروا دیے۔ سرکاری عہدہ داروں کے لیے ان تحائف کو ملکیت میں لینا تو دور کی بات بلکہ مختصر وقت کے لیے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ آپؐ کے ساتھ ساتھ تمام خلفائے راشدین کا طریقہ بھی یہی رہا۔ جس طرح سیدنا علیؓ نے اپنے دور خلافت میں عید کے روز اپنی چھوٹی بیٹی کے گلے میں ہار دیکھا جو اسے بیت المال کے خازن رافعہ نے صرف ایک دن کے لیے دیا تھا۔ فوراً خازن کو طلب کیا، سخت پرسش کی اور فرمایا ’’یہ ہار مسلمانوں کی امانت ہے جسے تم نے ان کی اجازت کے بغیر صرف میرے منصب کی وجہ سے دیا جس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں‘‘۔ آپ نے فوراً بیٹی کے گلے سے ہار اتروا کر واپس بیت المال میں رکھنے کے لیے خازن کے حوالے کیا اور فرمایا ’’آئندہ ایسی حرکت کی تو تمہیں سخت سزا دی جائے گی‘‘۔
سب سے پہلے تو ہمیں آگاہ ہونا چاہیے کہ سرکاری عہدہ داروں کو ملنے والے قیمتی تحائف پر اس کا ذاتی کوئی حق نہیں۔ یہ ان کے بارے میں 50 فی صد ادائیگی کا قانون نہیں بنا سکتے مفت میں رکھنے یا پھر کچھ ہزار کا۔ اگر ایسا کریں گے تو کھلم کھلا آپؐ کے حکم کی نافرمانی کریں گے اور ان کے معاون لوگ حتیٰ کہ اگر ہم عوام بھی چپ رہتے ہیں تو ہم عوام بھی آپؐ کی اس نافرمانی میں برابر کے شریک ہیں۔ غیر ملکی دوروں سے ملنے والے یہ تمام تحائف پاکستانی قوم کی ملکیت ہیں۔ چونکہ یہ تحائف تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ہمارا قومی اثاثہ ہیں لہٰذا انہیں شاندار قسم کا میوزیم بنا کر اس میں محفوظ کیا جائے اور میوزیم کی آمدن عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کروائی جائے۔ ان میں سے کچھ قیمتی چیزوں کی صاف شفاف نیلامی کر کے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے عوام کے لیے کچھ منافع بخش تعمیری کاموں میں استعمال کیا جائے۔ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے، ضرورت صرف پرخلوص ہونے اور اچھی نیت کی ہے۔ یہ تو صرف ہماری اپنی سوچ اور باتیں ہیں، ہمارے کرپٹ ارباب اختیار جو ملک کو نوچنے اور کھانے پینے میں سب ایک ہیں وہ ایسا کیوں ہونے دیں گے۔ اس کے لیے قوم کو اب اپنی ووٹ کی طاقت دکھانا ہوگی اور ایسے صالح حکمران کا انتخاب کرنا ہوگا جو ہماری امانتوں کی حفاظت کرے اور ہمارا حق ہمیں دے۔