سہولت کاری

591

پاکستان میں ایسی ایسی انہونیاں معرض وجود میں آتی رہتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ نے ایک ایسے قانون کو مسترد کردیا جس کا وجود ہی نہیں ہے۔ اسی طرح قیام پاکستان سے قبل مخالفین صف آرا ہوگئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتے رہتے ہیں۔ جسے استحکام پاکستان کانام دیا جاتا ہے۔ ۹ مئی کے خانہ جنگی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے سانحہ پر غور کیا جائے اور دیانداری سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو علم ہو گا کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا تھا۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج خواہ کتنی ہی طاقتور ہی کیوں نہ ہو اپنے ملک کے شہریوں کے سامنے کمزور پڑ جاتی ہے۔ جن کے تحفظ کی ذمے داری اٹھاتی ہے ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاتی۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ اسی لیے رونما ہوا تھا کہ وہاں کے عوام فوج کے مقابل آگئے تھے اور یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جب کسی ملک کی سرحدی فوج د شمن ملک کی سہولت کار بن جائے تو دشمن کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ جنہیں سرحد پر خوش آمدید کہا جاتا ہے وہ معزز مہمان بن جاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں بھی یہی المیہ پیش آیا تھا کہ سرحدی فوج بھارتی فوج کی سہولت کار بن گئی تھی۔ سو، اس نے مزاحمت نہیں کی۔ یوں مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔ ۹ مئی کو جو کچھ بھی ہوا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ شر پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی ابھی تک عمل میں نہیں آئی ہے۔ جبکہ فوج نے اپنے ارد گرد موجود سہولت کاروں کو سزائیں بھی سنا دی ہیں۔ حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے شہدا اور قومی ہیرو ز کی یادگاروں کو نذر آتش کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے والے تاحال محفوظ ہیں۔ سہولت کار ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ باہر کے دشمن سے لڑنا آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بارے میں علم ہوتا ہے مگر گھر کے دشمن سے لڑنا بہت مشکل ہوتاہے۔
کالا باغ ڈیم کیوں نہ بن سکا اس کی راہ میں کون سی رکاوٹیں ہیں اس کا علم ہر پاکستانی کو ہے۔ جو بھی حکومت کالا باغ ڈیم بنانے کا تہیہ کرتی ہے اس کا دھڑن تختہ ہوجاتا ہے۔ غور طلب بات یہی ہے جو قوتیں کالا باغ ڈیم بنانے نہیں دیتی ان کا تعلق کسی بیرونی ملک سے نہیں وہ پاکستان ہی میں رہتے ہیں۔ جو ہمارے سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ کون نہیں جانتا کہ وہ کتنے طاقتور ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم ان کی لاشوں پر ہی بن سکتا ہے۔
مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے والے کون ہیں سب جانتے ہیں ان کے چہروں پر نقاب نہیں ہے۔ مگر وہ محفوظ ہیں۔ ان کی اولادیں اور جائدادیں بھی محفوظ ہیں۔ کیونکہ ان میں ایسے افراد شامل ہیں جو صاحب اختیار ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ۹ مئی کی خانہ جنگی بھی قصہ پارینہ بن جائے گی۔ جس قوم نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا وہ اس خانہ جنگی کو بھی خانگی معاملہ سمجھ کر بھول جائے گی۔ اگر سقوط ڈھاکہ کے مجرموں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تو ۹ مئی کا واقعہ رونما نہیں ہوسکتا تھا۔
ان دنوں فوجی قیادت کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ فوج شر پسندوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پروپیگنڈا کے سہولت کار کون ہیں اور شر پسندوں کو مراعات دینے کا مقصد کیا ہے۔ قبل ازیں عزت مآب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی ایسا ہی پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ تاکہ وہ چیف جسٹس نہ بن سکیں۔ مگر وہ ناقابل تسخیر ثابت ہوئے۔ آرمی چیف خود کو ناقابل تسخیر ثابت کرچکے ہیں۔