ملعون فرانسیسی صدر میکرون نے فرانس میں سوشل میڈیا کی سہولت ختم کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ نوجوان اسنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرکے فرانس میں فسادات اور تشدد کو منظم کرنے کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ فرانس میں دس دن سے جاری فسادات کی ویڈیو فوٹیجز سوشل میڈیا پر بے حد مقبول ہورہی ہیں۔ پیرس شہر کے میئر کا گھر جلانے سمیت کئی اور پُرتشدد ویڈیوز اور ٹک ٹاک پر فسادات کی لائیو کوریج بھی خاص طور پر وائرل ہوئی تھی۔ ٹک ٹاک نے ہفتہ بھر میں صرف ان ویڈیوز کی بدولت 7 لاکھ نئے سبسکرائبر حاصل کیے اور ہفتہ وار ویوز کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا۔ ظاہر سی بات ہے ہم جتنا تشدد فلموں اور ڈراموں میں دکھاتے ہیں تو اب اس کے ناظرین حقیقی تشدد بھی اتنے ہی شوق سے دیکھنا چاہیں گے۔ ایک پوری نسل ہے جو سوشل میڈیا کی بدولت ’انتہائی متشدد‘ تیار ہورہی ہے۔ اِس کو روکنے کا یہی پاکستانی ٹوٹکا ہے کہ پابندی لگا دو۔ یہ ہے آزادیِ اظہار کا جعلی، پھیکا بلکہ کڑوا قسم کا لالی پاپ۔ یقین مانیں سب جھوٹ ہے، دھوکا ہے۔
میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ 8جون 2021ء کو جنوب مشرقی حصے کے دورے پر فرانسیسی صدر کو ایک تھپڑ اُس کے ہی عوام نے لگایا تھا۔ اس کے بعد پہلے پنشن کے مسئلے پر اِس سال جنوری میں اور اب جون میں پورا فرانس جن بدترین حالات سے گزر رہا ہے وہ شاید رب کریم کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر عذاب کا ایک ہلکا سا کوڑا ہو۔ میکرون کے 6 سالہ دورِ اقتدار میں5 فسادات ہوچکے ہیں، جبکہ 23 سال میں 17۔ مگر میں پھر کہوں گا کہ یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ آج ہم فرانس و سویڈن پر بات کرنے جارہے ہیں جو سوشل میڈیا پر گرم موضوعات میں شامل ہیں۔ نظریاتی و فکری اعتبار سے پاکستانی مسلمانوں کے لیے بھی اِس میں خاصا سامانِ عبرت و عمل موجود ہے۔
فرانس کے ٹریفک قوانین میں یہ شق 2017ء سے شامل ہے کہ اگر کسی کو گاڑی روکنے کا کہا جائے اور وہ نہ روکے، یا اس کو تلاشی کا کہا جائے اور وہ بھاگنے لگے تو پولیس کسی شک کی بنیاد پر گولی چلا سکتی ہے۔ اگر پکڑا جائے تو 2 سال قید اور 15000 یورو جرمانہ ہے۔ 2017ء سے فرانسیسی قانون نے پولیس کو اپنے آتشیں اسلحے کو پانچ مختلف منظرناموں میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے: جب ان کی جان یا جسمانی تحفظ، یا کسی دوسرے فرد کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جب کوئی جگہ یا ان کی حفاظت میں لوگ حملہ آور ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی ایسے شخص کو روکنے سے قاصر ہوں جو ان کی جان یا جسمانی حفاظت کے لیے خطرہ ہو، یا دوسرے لوگوں کو بھاگنے سے روکے جب وہ کسی ایسی گاڑی کو روکنے سے قاصر ہوں جس کے ڈرائیور نے رکنے کے حکم کو نظرانداز کردیا ہو، اور جس کے مسافروں کو ان کی زندگی یا جسمانی تحفظ، یا دوسرے لوگوں کے لیے خطرہ لاحق ہو- اگر یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے تو یہ قتل یا قتل کی کوشش کو روکے گی۔
2005ء میں بھی ایسا ہی ایک معاملہ ہوا، اُس میں بھی افریقی نژاد دو مسلمان لڑکے پولیس سے بچنے کے لیے ایک پاور اسٹیشن میں داخل ہوئے اور بجلی کے شاک لگنے سے مر گئے تھے۔ اس پر بھی شدید احتجاج شروع ہوا جس میں 8000 گاڑیاں جلائی گئیں، 3 لوگ مارے گئے، 126 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور 9 دن تک پیرس میں آگ و خون کا یہ کھیل چلتا رہا۔ 25ہزار مظاہرین میں سے 2900 لوگ گرفتار ہوئے تھے، جن کے لیے 11ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔ پھر2015ء میں عدالت نے پیچھا کرنے والے پولیس اہلکاروں کو بری کردیا تھا۔ اب بھی صورت حال یہ ہے کہ ہر قسم کے مالی مفادات و مستقبل کے خوابوں کو ایک طرف کرکے 3500 سے زائد مسلمان گرفتار ہیں جن کی اوسط عمریں 12-17 سال ہیں۔ پیرس شہر کے میئر کے گھر کو جلانے کے علاوہ ایک ہزار کے قریب عمارتیں، دکانیں، اور ہوٹل اس ردعمل کا شکار نظر آئے۔ یہی نہیں، میئر کے گھر والے بھی گاڑی میں زندہ جلنے سے بمشکل بچ پائے۔
لبرل معاشرے میں سوال یوں اٹھتا ہے کہ آپ نے الجزائر والے کو مشکوک کیوں سمجھا؟ سیاہ فام ہونے پر میں مشکوک کیوں ہوں؟ مجھے سسٹم میں کیوں ضم نہیں کیا جارہا؟ فرانسیسی شہری ہونے کے باوجود مجھ پر الگ قوانین کیوں؟ میرا آزادی والا حق کہاں ہے؟ یہاں سے جنم لیتی ہے شناخت کی سیاست۔ اب اِسی صورتِ حال میں اگر کسی ٹرانس جینڈر کو روکا جاتا، اسے گولی مار دی جاتی تو وہ نکل آتے۔ ان کا بھی یہی مطالبہ ہوتا۔ عورت کو مار دیتے تو ساری فیمنسٹ نکل آتیں، عورت مارچ ہوجاتا۔ یہ سب نکلنا، ردعمل دینا اِن معنوں میں ہاضم ہوتا ہے کہ یہ سب اپنی خاص شناخت کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کی زبان حقوق کی ہوتی ہے جو یہ ریاست سے مانگتے ہیں۔ اب یہ سارا ملغوبہ ایک متعصب، متشدد ریاست میں ہوگا تو ایسے ہی نتائج دے گا۔
ہوسکتا ہے یہ سب پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں سوال اُبھرے کہ یہ تو کوئی بری بات نہیں، یہ ٹھیک بات ہے، حقوق تو ملنے چاہئیں۔ تو جناب وہی ہوا نا، آپ کے ساتھ بھی! اصل مدعا ہی گول۔ سوال یہ کیوں نہیں پیدا ہوا کہ یہ سارے نام نہاد مسلمان اتنے بے غیرت کیسے ہیں کہ اپنے ایک لڑکے کے مرنے پر اِس طرح باہر نکل آئے، مگر پورے فرانس میں جب سرکاری سطح پر خاکے لگائے گئے تو یہ سب دبک کر بیٹھ گئے تھے۔ جب ماں، بہن، بیٹی کے حجاب کا مسئلہ آتا ہے تو کیوں دبک جاتے ہیں؟ جب میکرون اسلام کو کرائسز قرار دیتا ہے تو وہ حقوق کہاں جاتے ہیں؟ وہ آیت کہاں جاتی ہے: ”آپؐ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے، قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اُس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ (التوبہ 24 )
وہ حدیثِ مبارکہ کہاں جاتی ہے:”کوئی بندہ اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے اہل وعیال، اُس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔“ (صحیح مسلم)
یہی حال سویڈن میں بھی ہے۔تو اب کی بار سویڈن والوں کو فرانسیسی مسلمانوں کا احتجاج دِکھاکر یہ والی غیرت دلائی جا رہی ہے کہ تم کون سی فیڈر منہ میں دبائے غائب ہو؟جب نسلی بنیاد پر فرانس میں مسلمان نکل سکتے ہیں اور پورے فرانس کو تہہ تیغ کرسکتے ہیں تو تم دو سال میں چوتھی مرتبہ قرآن کی حرمت کے لیے کچھ نہ کر سکو؟اُلٹا قرآن کی تلاوت کو موضوع بنا رہے ہو؟یہ کون سا درس ہے؟ سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم کی اُس مسجد میں عید الاضحی کے دن 10ہزار سے زائد مسلمان جمع تھے، مسجد امام کے مطابق جس دوپہر یہ واقعہ ہوا،یقین مانیں کسی کوبھی توفیق نہ ہوئی کہ اُس ملعون کو وہ ردعمل دیتا جس کا دین تقاضا کرتا ہے۔ ایسی غفلت کی نیند جس میں انسان صبح سے شام تک اللہ کی رضا کے نام پر جانور ذبح کر رہا ہو مگر قرآن مجید کی توہین پر ایک مؤثر احتجاج بھی نہ کرسکے! وہاں مقیم ایک دوست سے فون پربات ہوئی تو کہنے لگا کہ ”وہ لوگ ہمیں اُکسانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ سارا مسئلہ سیاسی ہے“۔ میں نے پوچھا ”اب قرآن مجید اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ غیر مسلم اس کی توہین کرکے سیاست کر سکیں۔تمہارا ایمان اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ مغرب سمجھتا ہی طاقت کی زبان ہے کیونکہ وہ خود طاقت سے اپنا نفوذ کرتا ہے۔ ہم نے جب سے اُن کی پُرامن مظاہروں کی لالی پاپ منہ میں ڈالی ہے، ہماری نیند بھی بڑھ گئی ہے اور ایسے واقعات بھی بڑھ ہی رہے ہیں۔“