دنیا کے پانچ سب سے کم قابل ِ رہائش اور بدترین شہروں میں کراچی کے شامل ہونے کی حالیہ خبریں حیران کن نہیں ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی برسوں سے بے شمار مسائل سے دوچار ہے، جن میں ناقص انفرا اسٹرکچر، صحت کی ناکافی سہولتیں اور بگڑتا ہوا ماحول شامل ہیں۔ برطانوی میگزین دی اکانومسٹ کے ریسرچ اینڈ اینالیسز ڈویژن ’’اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ کی رپورٹ، جس نے گلوبل لائیو ایبلیٹی انڈیکس 2023 میں کراچی کو دنیا کے 173 شہروں میں سے 169 ویں نمبر پر رکھا ہے، شہر کی ناگفتہ بہ حالت کی نشاندہی کرتی ہے۔ کراچی تین کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر اور پاکستان کا معاشی حب ہے، جو ملک کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتا ہے۔ تاہم گزشتہ برسوں میں اس شہر کی تیز رفتار ترقی مناسب منصوبہ بندی اور ترقی سے مماثل نہیں ہے۔ نتیجتاً کراچی عدم توجہی اور بدانتظامی کا شکار ہوگیا ہے۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ کی فہرست میں شامل شہروں کی قابل ِ رہائش ہونے کی درجہ بندی ان کے پانچ شعبوں کی کارکردگی کی بنیاد پر کی گئی ہے، ان پانچ شعبوں میں استحکام، صحت کی دیکھ بھال، ثقافت و ماحولیات، تعلیم اور انفرا اسٹرکچر شامل ہیں، جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کراچی ان میں سے کسی بھی شعبے میں پیپلز پارٹی کے دعووں کے برعکس اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے۔ شہر کا مجموعی اسکور 42.5 مثالی سے بہت دور ہے، پائیداری اور استحکام کے اشاریے بدترین ہونے کے ساتھ صرف 20 اسکور ہوا، جو کہ 2022ء کے اسکور کے برابر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران شہر کی پائیداری کو بہتر بنانے کے لیے قابل ذکر کوششیں نہیں کی گئیں۔ جس شہر کے بارے میں دو دن قبل ہی سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ’’صحت کے شعبے میں جو کام پیپلزپارٹی نے کیا اس کی مثال نہیں ملتی، دوسرے صوبوں سے لوگ علاج کرانے آرہے ہیں‘‘، اس شہر کے بارے میں رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہر کا صحت کی دیکھ بھال کا 50 کا اسکور بھی تشویشناک ہے، کیونکہ کراچی برسوں سے صحت کی ناکافی سہولتوں سے دوچار ہے، اسپتال بھرے ہوئے ہیں اور مریض روزانہ کی بنیاد پر ذلیل و خوار ہورہے ہوتے ہیں۔ صرف عباسی شہید اسپتال کی جو صورتِ حال گزشتہ دنوں سامنے آئی ہے وہ پورے شہر کی، علاج معالجہ کی صورتِ حال کی عکاسی کررہی ہے اور صوبائی وزراء کے دعووں کی قلعی کھول رہی ہے۔ عباسی شہید اسپتال کے اطراف میں گندا پانی جمع ہے جس سے مریضوں کی صحت یابی سے زیادہ مزید بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی مشین کام نہیں کررہیں۔ الٹرا سائونڈ کی سہولت بھی دستیاب نہیں کیونکہ کولنگ سسٹم ٹھیک نہیں۔ صفائی ستھرائی کی صورتِ حال بھی انتہائی خراب ہے۔ اسی طرح ماحولیات کا اسکور 38.7 بھی تشویش ناک صورتِ حال کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کراچی کا ماحول تیزی سے خراب ہورہا ہے۔ کچرے کے مناسب انتظام اور آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات کے فقدان کے نتیجے میں ہوا اور پانی کی آلودگی شہر کے مکینوں کی صحت کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔ اس وقت کراچی میں ملک کے چند بہترین تعلیمی ادارے ہیں، لیکن تعلیم تک رسائی بہت سے لوگوں کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، خاص طور پر پسماندہ علاقوں کی صورتِ حال تو بہت ہی خراب ہے۔ اسکول و کالج کی بڑی بڑی عمارتیں اگر موجود بھی ہیں تو پڑھائی اور تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ زیادہ تر سفارشی اور رشوت دے کر بھرتی ہونے والے اساتذہ اور عملہ موجود ہے۔ اگر اچھی شہرت کے حامل چند اساتذہ موجود بھی ہیں تو وہ نظام کے ہاتھوں مجبور ہوکر طلبہ کو کچھ دینے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح شہر کے انفرا اسٹرکچر پر بھی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ شہر کی سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ، اور دیگر بنیادی سہولتیں ناکافی اور ناقص ہیں۔ اس وقت کچھ گرین اور لال بسیں چلائی بھی گئی ہیں تو وہ بس نمائشی حد تک ہی موجود ہیں۔ ای آئی یو انڈیکس کے حوالے سے شہر کی تاریخ اچھی نہیں رہی۔ 2019ء میں کراچی انڈیکس میں 140 شہروں میں سے 136 ویں نمبر پر رہا، جب کہ 2020ء میں اس کی رپورٹ شائع نہیں ہوئی، اس کے بعد 2022ء میں یہ 140 شہروں میں سے 134 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ شہر میں انسانوں کے رہنے کا معیار گزشتہ برسوں کے دوران مستقل گررہا ہے۔
کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور رینجر اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود روزانہ سیکڑوں موٹر سائیکلیں، گاڑیاں چوری ہورہی ہیں، لوگ اپنی جمع پونجی سے محروم ہورہے ہیں اور پولیس و سی ٹی ڈی شریف شہریوں کو اغوا کرنے اور ان سے بھتا لینے کے کام میں مصروف ہے۔ تازہ ترین واقعے میں سی ٹی ڈی اہلکار نے ایک شہری کو دو کمسن بچوں سمیت اغوا کرلیا اور اہل خانہ سے رقم مانگی، یہ سی ڈی سے متعلق پہلا واقعہ نہیں اس وقت شہر میں پولیس و سیکورٹی ایجنسیاں خود یہاں کے لوگوں کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں اس وقت کراچی میں دہشت گردوں اور ڈاکووں کے ساتھ ان کا راج ہے۔ بحیثیت مجموعی کراچی کی ابتر صورتِ حال سندھ اور وفاق کی حکومتوں کی برسوں کی غفلت اور بدانتظامی کا نتیجہ ہے، اور آج شہر پر دعویٰ کرنے والی پیپلز پارٹی سیاہ و سفید کی مالک کے طور پر سندھ کے اِس شہر میں برسوں سے موجود ہے اور صورتِ حال کی خرابی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے۔ شہر کا بنیادی ڈھانچہ اپنی تیز رفتار ترقی کے ساتھ برقرار نہیں رہا ہے، جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہورہا ہے۔ نتیجے میں بنیادی سہولتیں اور خدمات ناکافی ہیں۔ اس وقت شہر کراچی کے مسائل کو حل کرنے اور یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ شہر کی ترقی کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے، جس میں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے سمیت بنیادی سہولتیں اور خدمات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ پولیس اور سیکورٹی اداروںکے نظام کو بہتر کرنے ان کو احتساب کے دائرے میں لانے کے علاوہ ماحول کو محفوظ کرنے اور آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ سب کے لیے تعلیم تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے، خواہ وہ کسی بھی پس منظر سے تعلق رکھتا ہوں۔ تاریخی بات یہ ہے کہ کراچی کو اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی ضرورت اور پیپلز پارٹی نے مل کر تباہ کیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی قوتِ ارادی کا فقدان اور کرپشن کراچی کی ترقی میں نمایاں رکاوٹیں ہیں۔ کراچی کی رہائش کے بارے میں EIU کی رپورٹ حکومت سے شہر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ کراچی کے باشندے بہتر معیارِ زندگی کے مستحق ہیں، اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے۔