…آخری حصہ…
آزاد کشمیرسے جن لوگوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاکر جہاد میں عملی حصہ لیا ان کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے ہے۔ مقبوضہ کشمیرکے ہر قبرستان میں آزاد کشمیرکے شہداء موجود ہیں۔ آزادی کی منزل تک جماعت اسلامی کشمیری بھائیوں کے ساتھ رہے گی یہ ہمارا ایمانی اور دینی فریضہ بھی ہے اور جماعت اسلامی کے دستور کا حصہ بھی ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود خان نے اپنے دورہ امارت کے دوران میں تحریک آزادی کشمیر اور اصلاح احوال کے حوالے سے کردارادا کیا۔
جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے ہاتھوں سے کروڑوں نہیں اربوں روپے مختلف منصوبوں پر خرچ ہوئے۔ مگر کیا مجال کے کسی قیادت اور کارکن پرکوئی انگلی اٹھائے، یہاں ایک بات ذہین نشین رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اورکارکن بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور اسی طرح انسانی خواہشات رکھتے ہیں جس طرح دوسرے افراد ہیں۔ یہ کوئی فرشتوں کی جماعت نہیں ہے، نہ ہی کوئی یہ دعویٰ کرسکتا ہے۔ کوتاہیاں اور کمزوریاں ہیں لیکن خیر غالب ہے۔ ان لوگوں کے دامن صاف ہیں اس کا اعتراف آج دشمن بھی کررہے ہیں۔
جماعت اسلامی کی قیادت نے کردار پیش کیا ہے، جماعت اسلامی کے ساتھ اس وقت لاکھوں لوگ وابستہ ہیں، ہزاروں ارکان ہیں۔ آزاد کشمیرگلگت بلتستان اور مہاجرین کے ہر حلقے میں ایک طاقت کے طور پر موجود ہے، وقت قریب ہے کہ عوام جماعت اسلامی پر ہی اعتماد کریں گے اس کے علاہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر گلگت بلتستان چونکہ 1974ء میں ہی قائم ہوئی تھی اس لیے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے بعد 1977ء میں مارشل لا لگ گیا، 1985ء میں پاکستان کی طرف سے ایک شق لاگو ہوئی جس کی بنیاد پر جماعت اسلامی نے انتخاب میں براہ راست حصہ نہیں لیا تھا بلکہ تین جماعتوں کا اتحاد بنا تھا جماعت اسلامی بھی اس کا حصہ تھی۔
اسی اثناء میں مقبوضہ کشمیرکے اندر تحریک آزادی کشمیر پوری قوت کے ساتھ شروع ہوگئی ہزاروں کی تعدا د میں مقبوضہ کشمیر سے لوگوں نے ہجرت کرکے آزاد کشمیرکا رخ کیا، آزاد خطے سے جماعت اسلامی ہجرت کرکے آنے والوں کی رہائش اور دیگر ضروریات کی طرف لگ گئی، جماعت اسلامی نے مشاورت کے بعد تحریک آزادی کشمیر کے اس بڑے چیلنج سے عہدہ براء ہونے کے لیے اپنی ساری تونائیاں اس کی کامیابی کے لیے صرف کیں۔ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر نے اس تحریک کی تمام ضروریات پوری کیں۔ 1990ء کے انتخابات کے موقع پر یہ تحریک عروج پر تھی تو جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے مشاورت سے فیصلہ کیاکہ اگر اس موقع پر جماعت اسلامی انتخابی میدان میں جاتی ہے تو ساری توجہ اور وسائل انتخابی معرکے میں کامیابی کے لیے لگیں گے تو تحریک آزادی کشمیر متاثر ہوگی، جماعت اسلامی نے انتخابات میں نہ جانے کا فیصلہ کیا اور اپنی ساری توانائیاں تحریک آزادی پر صرف کیں۔ تحریک کے تقاضوں کے مطابق سارے محاذوں پر کام کرکے تحریک آزادی کشمیر کو ایک توانا آواز اور مسئلہ کشمیرکو عالمی سطح پرفلش پوائنٹ بنادیا۔
تحریک آزادی کشمیر کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے بیس کیمپ کے کردار کی بحالی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی نے 1996ء میں مشاورت سے پہلی بار پوری قوت کے ساتھ میدان سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا، انتخابات میں جماعت اسلامی کو اچھے ووٹ بینک کے ساتھ پارلیمانی نمائندگی بھی ملی، جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر عبدالرشید ترابی نے اس پارلیمانی نمائندگی کے ذریعے مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے حقوق کے لیے جنگ لڑی۔ 2006ء میں جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا، اس مرتبہ عبدالرشید ترابی 2100 کی لیڈ سے جیت گئے تھے مگر رات کو نتائچ تبدیل کروائے گئے۔ دوسرے دن عبدالرشید ترابی کی ہار کا اعلان کروایا گیا، ان انتخابات میں جماعت اسلامی کے دیگر امیداروں نے اچھے ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان انتخابات میں بھی ایک سازش کے تحت جماعت اسلامی کو اسمبلی سے باہر کیا گیا۔
جماعت اسلامی نے 2011ء میں ایک نومولود جماعت ن لیگ آزاد کشمیر کی پیش کش پر مشاورت کے بعد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا، اس بار بھی جماعت اسلامی کی جیتنے والی سیٹ عبدالرشید ترابی کے حلقے میں بغاوت کروائی گئی اور ایک فرد کو کھڑا عبدالرشید ترابی کے خلاف تاکہ ایک تو جماعت اسلامی کو اسمبلی میں نہ آنے دیا جائے اور دوسرا راجا فاروق حیدر اور نومولود مسلم لیگ ن کا سرکچلا جائے۔ جماعت اسلامی مخالف لابیز اپنے اہداف میں کامیاب ہوئیں اور جماعت اسلامی پارلیمانی نمائندگی حاصل نہ کرسکی۔
جماعت اسلامی نے 2016ء میں بھی مسلم ن آزاد کشمیر نے پھر پیش کش کی کہ مل کر سیاسی حکمت عملی اپناتے ہیں، جماعت اسلامی نے اس پیش کش پر مشاورت کی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا، مسلم لیگ ن نے جماعت اسلامی کو دوبراہ راست سیٹیں، دو مخصوص سیٹیں، مشیر حکومت اور حکومت بننے کی صورت میں اداروں میں بھی نمائندگی دینے کا معاہدہ کیا۔ جماعت اسلامی نے اس پر اتفاق کیا اور جماعت اسلامی نے اخلاص کے ساتھ ہر حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی مہم چلائی اور جیت کا فیصلہ جماعت اسلامی کے فیصلہ کن ووٹ سے ہی ہوا۔ اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو دوسیٹیں دیں۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کی کامیاب حکمت عملی تھی، جماعت اسلامی کو یہ نمائندگی ووٹ دینے کے عوض ملی ہے۔ جب سے جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کی قیادت حکومت میں آئی ہے اسمبلی اور حکومت تحریک آزادی کی پشتیبان بن گئی ہیں۔ قومی وقار میں اضافہ ہوا ہے نظام کی اصلاح کا کام شروع ہوا ہے۔ میرٹ کی بحالی کے لیے این ٹی ایس کے ذریعے اساتذہ کرام کی بھرتیوں اور پبلک سروس کمیشن کی تشکیل نو جیسے اقدامات سے بہتری پیدا ہوئی ہے۔ شریعت اپلیٹ بینچ اور ختم نبوت کے قانون کی منظوری اور آئینی ترامیم کے حوالے سے جماعت اسلامی نے اہم کردار ادا کیا اورکررہی ہے۔ جماعت اسلامی خیر کے کاموں میں تعاون کیا اور مسائل کی نشان دہی کرتی رہی ہے۔
16جولائی 1917ء سے 2023ء تک اس کاروان کے امیر ڈاکٹر خالد محمود خان ہیں جو کاروان کو آگے لے کرچلے، ان کی قیادت میں جماعت اسلامی نے وژن 2030 کے نام سے کام کا آغاز کیا ہے، وارڈ کی سطح تک موثر تنظیم قائم کرنے کے ہدف پر کام کیا، ریاستی اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا، ممبر سازی اور تنظیم کو مضبوط کیا جارہا ہے، جماعت اسلامی خطے کا مستقبل ہے۔ اگر ایک سیاسی جماعت ہوکر جماعت اسلامی نے عوام کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے اگر اس کے پاس اختیارات اور وسائل ہوں تو یہ اس خطے کو ماڈل اسلامی فلاحی ریاست بناسکتی ہے۔
اب اراکین جماعت اسلامی نے کثرت رائے سے ڈاکٹر محمد مشتاق خان کو امیر منتخب کیا ہے وہ چند دنوں میں حلف اٹھا کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریںگے، ڈاکٹر مشتاق خان پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، ایم بی بی ایس، ایم پی ایچ، ایگزیکٹو ایم بی اے، پی ایچ ڈی پبلک ہیلتھ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات میں بھی کام کیا ہے۔ ابتدائی تعلیم ہائی اسکول سراں ضلع جہلم ویلی سے حاصل کی، ایف ایس سی گورنمنٹ یونیورسٹی کالج مظفرآباد، ایم بی بی ایس نشتر میڈیکل کالج ملتان، ایم پی ایچ ہیلتھ سروسز اکیڈمی پشاور یونیورسٹی آف پشاور، ایگزیکٹو ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن ہیومن ریسورس مینجمنٹ پریسٹن یونیورسٹی پشاور کیمپس، پی ایچ ڈی پبلک ہیلتھ چولالانگ یونیورسٹی بنکاک تھائی لینڈ، میڈیکل آفیسر سی ایم ایچ راولاکوٹ، میڈیکل آفیسر آر ایچ سی لیپہ، میڈیکل آفیسر آر ایچ سی چکار، میڈیکل آفیسر بی ایچ یو چھتر کلاس مظفرآباد، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کشمیر سرجیکل اسپتال مظفرآباد، ممبر پبلک سروس کمیشن آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پبلک ہیلتھ فیکلٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائینسز یونیورسٹی آف آزادجموں وکشمیر مظفرآباد، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ مینسٹری آف ہیلتھ کنگڈم آف سعودی عربیہ، نشتر میڈیکل کالج ملتان میں باضابطہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی، 1988ء میں جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کے رکن بنے اور ہٹیاں بالا ضلع جہلم ویلی میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اس دوران میں جماعت اسلامی مظفرآباد شہر کے امیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں، 1996ء سے 2002ء تک جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیر کے مرکزی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری پر فائز رہے، 2008 سے 2017ء تک مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور مرکزی سیاسی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے جماعت اسلامی کو 2سیٹوں کی صورت میں پارلیمانی نمائندگی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔