سبز انقلاب درست سمت کے بغیر ممکن نہیں

815

چین کے بادشاہ کا سپہ سالار کسی جنگ سے واپس آرہا تھا اس نے خبر سنی کہ بادشاہ نے جنوب کی دوسری ریاست پر حملے کا فیصلہ کیا ہے۔ جونہی اس نے یہ خبر سنی سفر سے بھاگم بھاگ آیا اور اپنے شکن آلود لباس اور گرد سے اَٹے بالوں کی پروا کیے بغیر دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ کے حضور عرض کیا کہ ’’آپ نے جنوب کی جس ریاست پر حملے کا ارادہ کیا ہے شاید اس خبر کے باعث کیا ہے کہ وہ ہماری ریاست پر حملے کا سوچ رہا ہے۔ جبکہ اس ریاست کا فوجی افسر ہمیں راستہ میں ملا تھا۔ جس کا رُخ ہماری ریاست کے بجائے اُلٹی سمت تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کس ریاست جارہا ہے اس نے ہماری ریاست کا نام لیا۔ میں نے پوچھا، پھر تمہارا رُخ غلط سمت کیوں ہے؟ اس نے جواب دیا ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے پاس عمدہ گھوڑے ہیں‘‘۔ میں نے پھر اس سے کہا کہ تمہارے گھوڑے عمدہ سہی مگر تم غلط سمت جارہے ہو۔ اس نے کہا ’’کوئی بات نہیں میرے پاس بڑے ماہر رتھ بان ہیں۔ میں نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے کہ تمہارے پاس بڑے ماہر رتھ بان ہیں لیکن تم غلط سمت جارہے ہو‘‘۔ اس نے کہا ’’کوئی بات نہیں میرے پاس بڑے لائق و فائق دانشور ہیں‘‘۔
تو میرے بادشاہ آپ کو اس ریاست کی طرف رُخ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اُن کے پاس عمدہ گھوڑے، ماہر رتھ بان اور لائق و فائق دانشوروں کی فوج ہے لیکن وہ جتنا غلط سمت میں سفر کررہے ہیں اور ہماری ریاست سے اتنا ہی دور ہوتے جارہے ہیں۔ یہ کہاوت یوں یاد آئی کہ ہمارے چند دن کے مہمان وزیراعظم کا معاملہ بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے وہ سبز انقلاب کی بات کرتے ہیں، ان کا ایمان ہے کہ ایک دو سال میں زرعی معیشت بحال ہوجائے گی، ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم کمر باندھ لیں تو کوئی پہاڑ سمندر رکاوٹ ہی نہیں بن سکتا۔ بات ٹھیک وہی ہے کہ گھوڑے عمدہ، رتھ بان، ماہر اور دانشوروں کی فوج موجود لیکن سمت درست نہیں۔ سبز انقلاب کے لیے پانی لازم و ملزوم ہے۔ اِدھر بھارت جو کبھی دشمنی نہیں بھولتا پانی کو بھی ہتھیار کی طرح استعمال کرتا ہے، کبھی دریائوں میں پانی چھوڑ کر سیلابی صورت حال پیدا کردیتا ہے اور کبھی پانی روک کر دریا خشک کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہم جنگ پر (بھارت سے) اپنے وسائل ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں!!!
دوسرے فریق (بھارت) کو ہر قسم کی جارحیت کے لیے آزاد چھوڑ دینا درست سمت کا نہ ہونا ہی ہوا۔ لہٰذا بھارت آبی جارحیت پر ہر سال ہی عمل کرتا ہے اور ہم اپنے وسائل اپنے لوگ اپنی فصلیں ضائع کرتے ہیں۔ دریا خشک ہیں یا محنت سے اُگائی جانے والی فصلیں سیلاب کے سپرد کردیتے ہیں۔ پانی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں اور نہ ہی سبز انقلاب کا۔ یہ تو ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس وقت بین الاقوامی دانشور کہتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ پانی پر ہوگی۔ بھارت پاکستان سے سدا کا بغض رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر معاملے میں اپنی سمت درست رکھتا ہے۔ لیکن خود پاکستان کے سیاست دانوں اور دانشوروں کی غفلت سمجھ میں نہیں آتی۔ صوبوں میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی کا تقسیم میں تنازع رہتا ہے۔ سیاستدان ڈیموں کی تعمیر کو سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی ہوا ہے کہ عوام کے نمائندے جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور ملکی خزانے پر بوجھ ہیں عوام کے مسائل کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے، عوام کے لیے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے بجائے انہیں نہ بنانے پر قراردادیں پاس کرکے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ بھارت ہر سال سیلابوں کی صورت حال پیدا کرتا ہے یا موسمی تبدیلیوں سے سیلاب آتا ہے۔ بستیوں کی بستیاں زیر آب آجاتی ہیں، عوام جان و مال کے نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے ہی موقعوں کے لیے ڈیم تعمیر کیے جاتے ہیں تا کہ زائد پانی ذخیرہ ہوسکے اور سیلاب کی صورت میں بستیاں تباہی سے دوچار نہ ہوں۔ لہٰذا سبز انقلاب کے لیے پانی کے ذخیرے اور ڈیم کی تعمیر ضروری ہے۔