حرمت قرآن، سود اور حکمران

869

پوری دنیا میں مسلمان حرمت قرآن پر سراپا احتجاج ہیں، ہمارے حکمران مغرب کی غلامی میں ایسے پھنس چکے ہیں وہ آواز بلند کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ہم سویڈن کے اس عمل پر سخت غصہ میں ہیں میرا سوال یہ ہے اس میں کوئی شک نہیں سویڈن کے سفیر کو ہر مسلم ریاست سے نکال دینا چاہیے، سویڈن کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا چاہیے لیکن ہمارے حکمران جو قرآن کے قوانین کے خلاف اللہ سے جنگ کے مرتکب ہوتے ہیں کیا انہیں پاکستان سے نہیں نکالنا چاہیے۔ آئین ِ پاکستان کہتا ہے کہ یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی نہیں بن سکتا۔ پاکستان میں ایک نہیں درجنوں بلکہ سیکڑوں ایسے قوانین ہیں جن کے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سالانہ رپورٹوں میں یہ کہہ چکی ہے کہ یہ غیر اسلامی قوانین ہیں۔ سود نے پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے، درج ذیل آیات اور احادیث کی روشنی میں گر ہم غور کریں تو واضح نظر آتا ہے ہمارے حکمران قرآن و سنت کی بے حرمتی کے مرتکب ٹھیرے ہیں اور وہ سزا کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے، کیوں کہ یہ ایک معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ ہے، اسی وجہ سے قرآنِ مجید میں سود سے منع کیاگیا ہے:

’’اے ایمان والو! سود مت کھاؤ (یعنی مت لو اصل سے) کئی حصے زائد (کرکے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہو‘‘۔ (آلِ عمران: 130) اور جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت میں قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شحص جس کو شیطان خبطی بنا دے لپٹ کر (یعنی حیران و مدہوش)، یہ سزا اس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے، حالآنکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے۔ پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے (لینا) ہوچکا ہے وہ اسی کا رہا اور (باطنی) معاملہ اس کا خدا کے حوالے رہا اور جو شخص پھر عود کرے تو یہ لوگ دوزخ میں جاویں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرہ: 275) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو ( اور) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو۔ (البقرہ: 276) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔ (البقرہ: 278) اور جو لوگ اس ممانعت کے باوجود بھی سود جیسے قبیح عمل کرتے ہیں تو ان کے اس عمل پر قہر و غضب کے اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو اللہ اور ان کے رسولؐ کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے ’’پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے (یعنی تم پر جہاد ہوگا) اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جاویں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائے گا‘‘۔ (البقرہ: 279)

سیدنا ابوہریرہؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جادو کرنا اور اس جان کو ناحق مارنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور جہاد سے فرار (یعنی بھاگنا) اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔ (بخاری) جس بستی میں سود ہوتا ہے وہ بستی سود کی وجہ سے ہلاک و برباد ہو جاتی ہے، حدیث شریف میں ہے: ’’سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے، اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ (الکبائر للذہبی) سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: جس شب مجھے (معراج میں) سیر کرائی گئی، میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے، ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہنے لگے کہ سود خور ہیں۔ (سنن ابن ماجہ) سود کرنے کا گناہ ماں سے زنا کرنے کے گناہ سے بھی بدتر ہے، سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: سود میں ستر گناہ ہیں، سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے، جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (سنن ابن ماجہ) سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی۔ (سنن ابن ماجہ) سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ ضرور آئے گا، کہ کوئی بھی ایسا نہ رہے گا جس نے سود نہ کھایا ہو اور جو سود نہ کھائے، اسے بھی سود کا غبار لگے گا۔ (سنن ابن ماجہ)

ان آیات اور احادیث کی روشنی میں وفاقی شریعت عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل پارلیمنٹ کو یہ سفارش بھی کر چکی ہے کہ ان قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے لیکن افسوس کہ پارلیمنٹ کو کبھی وقت ہی نہیں ملا کہ ایسے قوانین میں ترامیم کرکے انہیں درست کرے۔ یہ پارلیمنٹ کی آئینی ذمے داری ہے لیکن اس مسئلہ پر نہ حکمران بولتے ہیں اور نہ اپوزیشن کے نمائندے۔ ہمارا اسلامی آئین صرف دکھاوے کے لیے ہے، اْس پر سنجیدگی سے عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ موجودہ آئین کو بنے تقریباً 50سال ہو گئے ہیں لیکن ہم آج تک سودی نظامِ معیشت سے جان نہیں چھڑا سکے۔ باوجود اس کے کہ سودی نظام نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے 30 سال پہلے ہمارے سودی نظامِ معیشت کو وفاقی شریعت عدالت نے غیراسلامی، غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا لیکن بدقسمتی سے اْس فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کے بجائے نواز شریف حکومت نے اسے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے کئی سال بعد، 1999-2000 میں وفاقی شریعت عدالت کے فیصلہ کے حق میں حکم دیا لیکن مشرف حکومت نے اس پر عملدرآمد کے بجائے عدالت عظمیٰ سے اس فیصلے کو 2001-2002 میں دوبارہ وفاقی شریعت عدالت کو واپس بھجوا دیا۔ ہمارے حکمران اس گناہ میں ملوث ہیں۔ یہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ذمے دار کو اس مسئلے میں اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہیے۔ یہ سوال نواز شریف کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے، یہ سوال اْن کے بعد آنے والے دوسرے حکمرانوں بشمول مشرف، آصف علی زرداری اور عمران خان کو بھی اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کو خود سے پوچھنا چاہیے۔ اور عوام کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ سیاستدان اور حکمران اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مرتکب ہیں انہیں آنے والے انتخابات میں اسی طرح نکالنا چاہیے جس طرح ہم چاہتے ہیں سویڈن کے سفیر کو ملک سے۔