ناکام اقتدار کے دوام اور اپنے نام کے لیے کارڈز کا کھیل جاری ہے اور اب وفاق کے نمائندہ اور سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے بھی اس کھیل میں ترپ کا پتا اچھال دیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ صوبہ سندھ میں جن کی آمدن 35 سے 40 ہزار روپے ماہ وار ہے وہ کم آمدن والے کہلائے جائیں گے، اُن کو علاج معالجہ کی مفت سہولت کی فراہمی کے لیے جلد ہیلتھ کارڈ جاری کیے جائیں گے، ان کارڈز کے ذریعے ان کو 5 لاکھ روپے تک کی مفت ہیلتھ انشورنس ہوگی۔ کم آمدن کے یہ کارڈز ہولڈر شہر کے اچھے اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت سے مستفید ہوسکیں گے۔ اس ہیلتھ کارڈ کے اخراجات مخیر حضرات کے تعاون سے کیے جائیں گے۔ سندھی زبان کی کہاوت ہے ’’مرغی کوری کی نام سید کا‘‘ ہوسکتا ہے کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی گورنر سندھ حکیم محمد سعید کی سی صورت حال سے دوچار ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ جب میں گورنر سندھ بنا تو سندھ کے وزیراعلیٰ نے گورنر ہائوس کی مہینوں خرچ دینے سے گریز کیا اورگورنر ہائوس کو مفلس بنادیا۔ قبر کا حال مردہ جانتا ہے، سو ہم تبصرہ کیا کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گورنر سندھ، حکومت سندھ کے اُس اعلان شاندار سے بھی باخبر ہوں گے جس میں کہا گیا تھا کہ 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو مفت طبی سہولت اور رعایتی قیمت پر ادویہ کی خریداری کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں عمر رسیدہ افراد سے فارم پُر کرائے گئے اور پھر سرکاری اہلکاروں کے جمع کردہ کوائف و فارم نادرا کو بھجوائے گئے اور بالآخر یہ معلوم ہوا کہ حکومت سندھ نے کانوں کو ہاتھ لگا کر اس منصوبہ کو اُس قبرستان میں دفن کردیا جہاں دعائے خیر بھی نہیں مانگی جاسکتی۔ کئی سال گزر گئے اس کی تدفین کو، اب تو ہڈیاں بھی اس منصوبے کی گل گئی ہوں گی اور حکومت سندھ کا اقتدار بھی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ سو گورنر سندھ نے یہ بارگراں مخیر حضرات کے سر ڈال دیا۔ اور جب تک وہ گورنر سندھ رہیں گے اس کارڈ کا دال دلیہ چلتا رہے گا اور وہ چلتے بنے تو اس کا چلنا ختم چار قل پڑھ لو۔
ویسے بھی گورنر سندھ نے 35 ہزار سے 40 ہزار روپے ماہانہ آمدن والے کو کم آمدن والا قرار دے کر حکومت سندھ کی کم سے کم تنخواہ 30 ہزار روپے والے خوش نما اعلان کی مٹی پلید کرکے نفی کردی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی دوسری طرف حکومت پنجاب کے نگراں وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا بیان آگیا۔ خبر میں کہا گیا کہ جس کا بجلی کا بل 8 ہزار روپے آئے گا اور جو بیرون ملک کا سفر کرے گا خواہ وہ حج و عمرہ کا ہی کیوں نہ ہو جو پائی پائی جوڑ کر مشاق کرتے ہیں وہ مفت دل کے علاج کے حقدار نہ ہوں گے۔ اب چونکہ پنجاب کی حکومت کا بھی چل چلائو ہے وہ اس کو چلانے کی ایک سیریز کو ختم کررہی کیوں؟ اس کا بھی راز انہوں نے رکھا اور یہ انکشاف چونکا دینے والا ساتھ ہی کر ڈالا اور دل کی بات بھی کہہ ڈالی، صحت کارڈ کی وجہ سے لوگ ارب پتی ہوگئے جو شاید حکمرانوں کا حق ہے، صحت کارڈ جسمانی صحت کی بحالی کا ہے مالی صحت کا پنجاب میں اس قدر بہتری کا کیسا ہوگیا؟
گورنر سندھ کامران ٹیسوری سونے کے کاروبار سے وابستہ رہے ہیں اور اب بھی سونے کی کان میں بیٹھے ہیں۔ اس کا دامن پکڑے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس مفت ہیلتھ کارڈ کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح وہ بھی اپنے نام سے منسوب کرتے ہیں یا کچھ اور نام دیتے ہیں۔ مخیر حضرات کے تعاون کا یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے اور گورنری کے خاتمے کے بعد کہیں لوگ یہ نہ کہہ اٹھیں کہ تماشا دکھا کہ مداری گیا۔ یا سندھ حکومت کے منصوبے کی طرح دم توڑ دیتا ہے۔ سندھ کے موسم اور سیاست کا کچھ پتا نہیں اس منصوبے میں مردو زن سب شریک ہیں عمر کی بھی شرط نہیں بس آمدن کا تعین ہوگا۔ سرکاری ملازم کا تو آسان ہوگا مگر ان لاوارثوں کا تعین آمدن کون سا سرکاری غیر سرکاری ادارہ کرے گا۔ کیا یہ منصوبہ بھی اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنے کو دے کی طرح ہوگا جیسا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بے نظیر کے چاہنے والوں کے لیے خاص بنادیا گیا اور کم آمدن والا وہ ہوگا جس کی آمدن کم ہوگی واللہ اعلم۔