’’اہل کراچی کو مبارک ہو‘‘

1024

15 جون کا سورج اپنا جلوہ تمام تر دھوکہ دہی، دھونس دھاندلی، اپنے اختیارات کا غلط استعمال، مخالف سیاسی نمائندوں کا اغوا، گرفتاریاں، لالچ، غرض تمام تر بدعنوانیوں کو جنم دے کر سیاسی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کر گیا۔ تقریباً سال بھر پر محیط کراچی کے بلدیاتی انتخابات بدترین اُتار چڑھاؤ کے بعد اپنے انجام کو پہنچے۔ جہاں قدم قدم پر جمہوری طریقوں کو پامال کیا گیا۔ اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں، ووٹروں کی خریدوفروخت، بذریعہ طاقت و لالچ وفاداریاں بدلوائی گئیں، لاکھوں نہیں کروڑوں کا لین دین کیا گیا۔ یہ سب کچھ اس شہر میں ہوا جہاں ہزاروں لوگ نالوں پر سوتے ہیں۔ غربت و بیماری کے دکھ جھلتے ہیں جہاں صاف پانی اور بجلی سے لے کر دال روٹی بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے اور مستقبل کے معمار نوجوان نسل ڈگریاں لیے مایوسی کا شکار وطن چھوڑنے پر مجبور ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس ملک کو لوٹ کر کھانے والوں کو بھی پیٹ بھر کے روٹی نصیب نہیں وہ چاول اور چند لقمے سبزی کے بمشکل حلق سے نیچے اُتارتے ہیں۔ بے شمار بیماریاں ان کے گلے کا طوق بن گئی ہیں، وہ چاہیں بھی تو نہ سکون سے سو سکتے ہیں نہ مزے لے کر کچھ کھا سکتے ہیں مگر ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ صحیح کہا گیا ہے کہ ’’ان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی‘‘۔ اس کی تازہ مثال اس بل کی سینیٹ میں منظوری ہے جس کے مطابق سینیٹ کے چیئرمین سابقہ وموجودہ نئے بننے والوں کے لیے تاحیات جن مراعات کا اعلان کیا گیا ہے وہ طلسمِ ہوش ربا ہے ناقابل ِ فہم۔ نہ معلوم یہ لوگ کس مٹی سے بنے ہیں؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کرپشن میں ملوث حکمرانوں وسیاست دانوں نے ہمیشہ جمہوریت کو اپنے پاؤں تلے روندا ہے۔ لگ بھگ ایک سال کا عرصہ بتنے کو ہے کراچی کے بلدیاتی الیکشن مکمل ہوتے ہوئے بھی حلقہ بندیوں میں ایسی غیر شفافیت دیکھنے میں آئیں کہ کہیں یوسی پندرہ سے بیس ہزار آبادی پر بنائی گئی اور کہیں ستر سے اسّی ہزار والی آبادی کو پوری یوسی بنادیا گیا۔ تمام تر الیکشن کے دوران بے انتہا دھاندلی دیکھنے میں آئی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا شور مچاتے رہے مگر کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس؟؟ اور بالآخر پندرہ جون کو خود ساختہ میئر اور ڈپٹی میئر کے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں شو آف ہینڈز کے ذریعے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب رکھا گیا۔

آرٹس کونسل کے اطراف ڈنڈا بردار پولیس اور رینجرز کی بڑی تعداد موجود تھی۔ صبح ساڑھے سات بجے گھروں سے نکلے دس بجے کے قریب ایک شناختی پریڈ سے گزر کر آڈیٹوریم میں پہنچے وسیع وعریض آڈیٹوریم کے اسٹیج پر سامنے الیکشن کمشنر نظر عباس، ریجنل الیکشن کمشنر کراچی بیٹھے تھے اور ان کے دائیں بائیں جانب دو پولنگ بوتھ تھے۔ وقفے وقفے سے نعرہ بازی جاری تھی۔ اندر کسی پرائیوٹ چینل کو نہیں آنے دیا صرف پی ٹی وی موجود تھا۔ اسی اثناء میں محترم حافظ نعیم الرحمان اندر تشریف لائے اور حال نعرہ ِ تکبر سے گونج اٹھا۔ گیارہ بجے آڈیٹوریم کے دروازے بند کردیے گئے۔ تلاوت کے بعد باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوا۔ شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹوں کو گنا گیا۔ پھر ووٹوں کو کنفرم کرنے کے لیے اسٹیج پر بنے پولنگ بوتھ پر قطار میں لگ کر شناختی کارڈ دکھا کر ووٹر لسٹ پر اپنے نام کے آگے مہر لگائی۔ سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے پر ان مٹ روشانائی لگائی جارہی تھی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے پولنگ ایجنٹ کے فرائض محترم قاضی صدرالدین نے بخوبی انجام دیے۔ یہ پورا مرحلہ دو دفعہ دوہرایا گیا پہلے میئر کا انتخاب اور دوسرے مرحلے پر ڈپٹی میئر کا۔

انتخاب میں تقریباً 350 ارکان موجود تھے، ہماری طرف سے میئر کے لیے محترم حافظ نعم الرحمان اور ڈپٹی میئر کے لیے محترم سیف الدین ایڈووکیٹ تھے۔ ہم لوگ چھے گھنٹے تقریباً اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ ہمارے ساتھ پی ٹی آئی کی سٹی کونسلرز بھی موجود تھیں جن سے گپ شپ جاری تھی۔ پی ٹی آئی کے اور تمام جماعت ِ اسلامی کے ارکان موجود رہے اور بار بار نعرے لگاتے رہے کہ 32 ارکان ڈیفنس کے بنگلوں سے آزاد کرو ہماری گنتی پوری کرو۔ پی ٹی آئی کی خواتین بھی اپنے لوگوں کی غیر موجودگی پر بہت برہم تھیں اور جماعت اسلامی کی بھرپور حمایت کررہی تھیں میں اپنی سیٹ پر بیٹھی غور و فکر میں گم تھی۔ ماضی کے مختلف دور نظروں میں گھوم رہے تھے۔ حال کی چوکھٹ پر کھڑی!! کہ مستقبل کے لیے کیا لائحہ عمل ہو؟ کیا پلاننگ ہو۔۔۔؟ سوچ و بچار کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ زبان مسلسل ذکر کرہی تھی۔ آنکھوں کا نمکین پانی آڈیٹوریم کے مناظر کو دھندلا کررہا تھا۔ باہر کیا ہورہا ہے سب کا اندازہ تھا۔ اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان کا خواب آنکھوں میں لیے ریاستی دہشت گردی کا شکار کارکنان پر پتھروں اور ڈنڈوں کی بارش تھی۔ آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم کی سرخ کرسی پر بیٹھے چھے گھنٹے کب بیت گئے پتا ہی نہیں چلا۔ واقعی غور و فکر اور اردگرد کے لوگوں کے رویّوں کا مشاہدہ خود ایک کتاب ہے۔ جب ہی محترم مولانا مودودیؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ سفر میں کون سی کتب پڑھتے ہیں تو مولانا نے فرمایا: میں کائنات کا مطالعہ کرتا ہوں۔

اس سارے منظر نامے پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس بلدیاتی الیکشن میں جماعت ِ اسلامی نے بہت کچھ حاصل کیا۔ جماعت کی دعوت بہت تیزی سے گھر گھر پہنچ گئی ہے۔ لوگوں کی اکثریت گھروں سے نکلی اور جماعت کو ووٹ ڈالا۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ حسب ِ روایت جماعت یا نعیم الرحمان صاحب کو بائی پاس کرتے یا نظرانداز کرتے یا ان کے بغیر کوئی کامیاب شو اْن ائر جاتا۔ سوشل میڈیا پر سیکڑوں لوگوں کی رائے جماعت اسلامی کے حق میں بنی ہے۔ اور دوسری جانب عالمی سطح پر بھی ہم دیکھیں تو لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ پوری دنیا میں نمایاں نام یا کام کرتا لیڈر منظرنامے سے غائب ہے۔ حتی کہ امریکا میں تو قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ امریکی صدر بائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ۔۔۔ دونوں کی عمریں اسّی پلس ہیں بائیڈن تو تین دفع اسٹیج پر منہ کے بل گر چکے ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ اور بائیڈن دوبارہ الیکشن کی تیاریاں کررہے ہیں۔ جبکہ امریکی عوام کے سامنے بھی کوئی نمایاں لیڈر موجود نہیں۔ عالمی سطح پر لیڈرشپ کے اسی خلا کو جماعت ِ اسلامی نے پر کیا۔ کراچی ہی کو نہیں پاکستان کو ایک بردبار باوقار نوجوان قائد حافظ انجینئر نعیم الرحمان کی صورت ملا ہے۔بغیر کسی اختیار کے کراچی کے شہریوں کی آواز بن کر بے شمار مسائل حل کیے ہیں۔ ہر ہر مشکل گھڑی میں جماعت ِ اسلامی کے بے لوث، جاں نثار کارکنان کے ساتھ تہذیب و شائستگی دینی اقدار کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے۔ ایمانی طاقت و قوت کے ساتھ ’’میدانِ عمل‘‘ موجود ہیں۔ اہل ِ کراچی کو یہ قائد و رہنما مبارک ہو۔۔۔ تپتی دھوپ میں شجرِسایہ دار مبارک ہو۔۔۔