ماونت

965

شاید پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں کسی بھی شخص کو قانونی طور پر اس کی جائداد سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ بہاولپور ہائی کورٹ کی غلام گردشوں میں بھٹکنے والے بابا جی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے دو مکان اور چار دکانیں اپنی ایک بیوہ خاتون کو دی تھی جو ان کی رشتے دار ہے تا کہ اس کی رہائش اور آمدنی کا ذریعہ بن جائے۔ مگر اس بیوہ خاتون نے پٹواری سے جعلی فرد ملکیت بنوا کر مکانوں اور دکانوں پر قبضہ جما لیا اور بابا جی پر مقدمہ دائر کردیا کہ انہوں نے اس کی جائداد اپنے نام کروالی ہے محکمہ مال سول کوٹ اور سیشن کوٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا اور وہ بیوہ خاتون جس کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اور وہ اپنے علاقے کی کونسلر بھی ہے اس نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی جو عرصہ 10۔11 سال سے ہائی کوٹ کی کسی الماری میں پڑا دیمک کی خوراک بن رہا ہے۔

باباجی سخت حیران ہیں کہ اس طویل اور جاں گسل عرصے میں ایک بار بھی سماعت نہیں ہوئی جب بھی پیشی پڑتی ہے لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے جلد سماعت کے لیے درخواست بھی دی گئی مگر کوئی جسٹس بھی ٹس سے مس نہ ہوا ریڈر صاحبان کہتے ہیں کہ مقدمات کی تعداد اتنی زیادہ ہو تی ہے کے باقی مقدمات کو لیفٹ اوور کرنا پڑتا ہے۔ بابا جی نے بارہا گزارش کی ہے کہ اگر جسٹس صاحبان مقدمات کو پورا وقت دے کے لیفٹ اوور کی ضرورت ہی نہ پڑ ے۔ مگر دشواری یہ آن پڑی ہے کہ نقار خانے میں توتی کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی۔ 22 جون کو پیشی تھی جو لیفٹ اوور کی نذر ہو گئی۔ بابا جی نے بہت سمجھایا کے ابھی تو 11:30 ہوئے ہے اور عدالت کا ٹائم 4 بجے تک ہے اگر جسٹس صاحب 4 بجے تک سماعت کریں تو لیفٹ اوور کی نوبت ہی نہ آئے جواباً کہا گیا کہ سوچنا جسٹس صاحب کا کام ہے ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے اگلی پیشی طلب کی گئی توکہا کہ سالانہ چھٹیوں کے بعد دی جائے گئی بابا جی نے کہا کے اگست سے پہلے جولائی بھی آتا ہے تو پیشی جولائی میں دی جائے کیونکہ جولائی میں عدالت کھلی ہوگئی۔

بابا جی نے ریڈر کو سمجھایا کہ تم لو گ چھٹی کے علاوہ کرتے کیا ہو ایک سال میں 365 دن ہوتے ہے مگر تم لوگ 65 دن بھی کام نہیں کرتے۔ بابا جی کی عمر اس وقت 80 برس ہے عدالت کے رویے نے انہیں شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بنا دیا ہے بد نصیبی یہ بھی ہے کے وطن عزیر میں عزیزان مصر کے سوا کسی کی عزت نہیں کی جاتی کسی کو قابل عزت نہیں سمجھا جاتا حتی کہ عمر رسیدہ لوگوں کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نظام سے وابستہ افراد کی مٹھی گرم نہ کی جائے تو ان کی گرم جوشی سرد مہری کا شکار رہتی ہے۔ اس ضمن میں ڈپٹی رجسٹرار سے گزارش کی گئی مگر انہوں نے بھی اپنی مجبوری کا اظہار کر دیا اب بابا جی اپنے اور ہمارے واقف وکلا سے مشورے کررہے ہیں کہ ایسا مشورہ دیا جائے کہ پیشی منسوخ نہ ہو اور سماعت یقینی ہو جائے عدالت کی غلام گردشوں کو اپنی انگلیوں پر نچانے والوں کا مشورہ ہے کہ جلد سماعت کی پیشی کی درخواست دیں۔ بابا جی بھی یہی چاہتے ہے کہ پیشی منسوخ یا ری لسٹ کرنے کے بجائے سماعت کی جائے تا کہ ان کا بڑ ھاپا عدالتی دھکوں سے محفوظ ہو جائے اور وہ سکون اور اطمینان کے ساتھ چار دیوری میں آخری سانسیں لے سکے مگر پاکستان کے نظام عدل میں یہ ممکن نہیں کیونکہ عدالتیں نقار خانہ بن جائے تو توتی کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ عدالتیں ایسا سرکس بن گئی ہیں جس میں جوکر کا کام سائلین سے لیا جاتا ہے اور یہ نظام اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جاتا۔