دینی مقدَّسات کی حرمت کا تحفظ (حصہ اول)

850

دینی مقدَّسات میں سب سے اہم ذاتِ باری تعالیٰ، ذاتِ رسالت مآبؐ اور قرآنِ کریم ہے، مزید تفصیل کا یہ مقام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات کے ساتھ ساتھ ذاتِ رسالت مآبؐ کی عظمتِ شان اور آداب خود قرآنِ کریم میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان عملی اعتبار سے کتنا ہی کمزور ہو، دینی مقدَّسات کی بے حرمتی پر مشتعل ہوجاتا ہے، اپنے جذبات پر قابو رکھنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اپنی جان، مال، آبرو حتیٰ کہ اپنا سب کچھ ان مقدّسات پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا اور مغرب میں جب بھی اس طرح کے واقعات ہوئے، دنیا بھر کے مسلمانوں نے بے اختیار اپنے ردِّعمل کا اظہار کیا، اس میں وہ مسلمان تارکینِ وطن بھی شامل ہیں جو اُن ممالک کی شہریت اختیار کرچکے ہیں یا قانونی طور پر وہاں مقیم ہیں۔

اب سوال یہ ہے: ’’مسلمان اپنے دینی مقدَّسات کی حرمتوں کا تحفظ کیسے کریں، ان دیدہ دانستہ مذموم ابلیسی تحریکات کا سدِّباب کیسے کریں‘‘، یہ مسئلہ مسلمانوں کے اہلِ فکر ونظر کے لیے سنجیدہ اور گہرے غورو فکر کا تقاضا کرتا ہے، ہمارے سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے: بعض اوقات مسلم ممالک میں عوام جذبات میں آکر مظاہرے کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، اپنے جذبات اور ردِّعمل کا اظہار کرتے ہیں، اس حد تک یہ بات درست، قابلِ فہم بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضاہے۔ لیکن جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے ہی ملک میں قومی اور نجی املاک کو تباہ کرنا یا خدانخواستہ جانی نقصان ہوجانا، درست نہیں ہے، جب ہم ایک غلطی کے ازالے کے لیے نکلیں تو ردِّعمل میں ہمیں دوسری غلطی کا ارتکاب کرنا زیب نہیں دیتا اور ویسے بھی یہ ’’گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ کا مصداق ہے۔ اسی طرح خدانخواستہ ملک کے اندر یا باہر دوسروں کے مذہبی اداروں، اشخاص اورسفارت خانوں پر حملہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے، اگرچہ وقتی طور پر جذباتی لوگوں کو اس سے تسکین ملتی ہے، لیکن اس طرح کے عوامل آخرِ کار منفی نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔

ہماری سوچی سمجھی رائے ہے: ’’مغربی ممالک میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی مذموم حرکات (مثلاً: اہانتِ رسول پر مبنی کارٹون چھاپنا، قرآنِ کریم کو جلانا، ہمارے دیگر دینی مقدَّسات کی بے حرمتی کرنا) دیدہ ودانستہ کی جاتی ہیں‘‘، کیونکہ انہیں معلوم ہے: ’’مسلمان اس پر بے اختیار ردِّعمل کا مظاہرہ کریں گے اور وہ بعض مواقع پر حدود سے تجاوز بھی کرسکتے ہیں‘‘، اس طرح وہ دنیا پر یہ ثابت کریں گے اور پرزور پروپیگنڈا کریں گے: ’’مسلمان انتہا پسند ہیں، عسکریت پسند ہیں، دوسروں کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں، دہشت گرد ہیں، ان سے امنِ عالَم کو خطرہ ہے اور ہمارے لبرل حضرات اُن سے بھی چار ہاتھ آگے ہوں گے‘‘، یہی ’’اسلاموفوبیا‘‘ ہے۔ وہاں کی حکومتیں ان مذموم ابلیسی کارروائیوں پر رسمی طور پر اظہارِ مذمت یا اظہارِ افسوس کردیتی ہیں اور بس۔ جب اُن سے ایسے بدبختوں کو سزا دینے کی بات کی جائے، توکہتے ہیں: اظہارِ رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی ہمارے تمدّن، نظام یا لائف اسٹائل کے لوازمات میں سے ہے، یعنی یہ چیزیں اُن کے لیے عقیدے کا درجہ رکھتی ہیں اور ان پر وہ کسی طرح کی روک ٹوک عائد کرنے اور قدغن لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، وہ اسی مادر پدر آزاد ی پر مشتمل تہذیب کو دوسری اقوام پر مسلّط کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ یک زبان، یک جان اور یک سو ہوجاتی ہیں۔ چونکہ انہیں حربی، مادّی، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے باقی دنیا پر غلبہ حاصل ہے، نیز عالمی اداروں کی پالیسی سازی پر بھی انہی کا غلبہ ہے، اس لیے اُن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، وہ تجارتی اور سفارتی پابندیاں لگادیتے ہیں، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کا ناطقہ بند کردیتے ہیں اور اس کا کوئی مؤثر توڑ تاحال دوسری اور تیسری دنیا کے پاس نہیں ہے۔

وہی مغربی اقوام جن کی حکومتیں مسلمانوں کی دل آزاری اور اذیت رسانی کے جرم کو پریس کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے پرفریب نعروں کی آڑ میں تحفظ دیتے ہیں، وہاں اگر ہولوکاسٹ کا کوئی انکار کرے یا اسے محض پروپیگنڈا قرار دے تو یہ اہلِ مغرب کے نزدیک قابلِ تعزیر جرم ہے، کیونکہ اُن کے نزدیک اس کے ذریعے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ الغرض اُن کے نزدیک کم وبیش سولہ ملین یہود کی دل آزاری جرم ہے، مگر ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری سرے سے جرم نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ایک قابلِ مذمت یا قابلِ تاسّف فعل ہے۔ اس سے مسلمانوں کو اپنی قدرو منزلت کا بھی اندازہ لگالینا چاہیے کہ دنیا محض تعداد کو نہیں دیکھتی، عالمی سیاست، عالمی معیشت اور عالمی امور میں کسی کی اہمیت کو دیکھتی ہے، ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اور خود عام مسلمانوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ردِّعمل نیم دلانہ، پست ہمتی اور کمزوری پر مبنی ہوتا ہے، علامتی طور پر مسلم ممالک کا ایک فورم اوآئی سی ہے، اسے عربی میں ’’مُنَظِّمَۃُ التَّعَاوُنِ الْاِسْلَامی‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اس میں تنظیم، تعاون، اتحاد اور تحریک کی حقیقی روح موجود نہیں ہے، بس دفع الوقتی اور اپنے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ ایک آدھ اجلاس کرلیتے ہیں، کوئی قرار داد پاس کرلیتے ہیں اور بس!۔ اس کا پہلا اور آخری حل یہی ہے کہ جس ملک میں اسلام کے دینی مقدّسات کی اہانت ہو، اُس کا اقتصادی، سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ کیا جائے، اقوامِ متحدہ اور حقوقِ انسانی کے عالَمی اداروں پر دبائو ڈالا جائے کہ اقوامِ عالَم اپنے اپنے ممالک میں دینی مقدسات کی اہانت کے بارے میں سخت قوانین بنائیں، اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دیں اور اس کے سدِّباب کے لیے سنگین سزائیں مقرر کرکے انہیں نافذ کریں۔ اقوامِ متحدہ سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی ایک جامع مانع اور اجماعی تعریف کی جائے، کیونکہ ایک یا چند افراد کو زبان، مذہب یا رنگ ونسل کی بنیاد پر جسمانی اذیت پہنچانا اگردہشت گردی ہے تو ایک یا چند افراد کا ابلیسی حرکت کے ذریعے ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کو ذہنی، روحانی اور قلبی اذیت پہنچانے کو بھی دہشت گردی اور قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے، اس مسئلے کا یہی ایک حل ہے، کیونکہ درحقیقت یہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔

یہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ خود پاکستان کے اندر سوشل میڈیا پر دینی مقدّسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ دنوں ’’لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان‘‘ کے چیئرمین جناب رائوعبدالرحیم ایڈوکیٹ اسلام آباد سے تشریف لائے اور ہمیں شواہد دکھائے کہ سوشل میڈیا پر اسلام کے دینی مقدّسات کے بارے میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ یہ آڈیو /وڈیو مناظر سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جھرجھری طاری ہوجاتی ہے، دل دہل جاتا ہے، انسان سوچتا ہے: زمین پھٹ کیوں نہ گئی، آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا، کوئی مسلمان نہ ان مناظر کو بیان کرسکتا ہے اور نہ دیکھنے کی جسارت کرسکتا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر یہ کام کر رہے ہیں، ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں۔ رائو صاحب نے بتایا: انہوں نے سیکڑوں افراد کی نشاندہی کرکے حکام تک پہنچایا، لیکن قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ عدالتیں بروقت فیصلے کرتی ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی تھیٹر لگانے سے فرصت ہی نہیں کہ وہ دینی مقدّسات کی حرمتوں کے تحفظ کے لیے اپنے منصبی اختیارات کو استعمال کریں، وہ اپنی ناموس کے لیے تو بہت حساس ہوتے ہیں، توہینِ عدالت کی دھمکی دیتے ہیں، لیکن انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ دینی مقدسات کی حرمتوں کو اپنے منصب کی حرمت کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔ اسی طرح اگر کوئی بااختیار اور طاقت ور شخصیت کی توہین کرے اور وہ شخص ملک کے اندر موجود ہے تو اُسے پاتال یعنی تحت الثریٰ سے بھی باہر نکال کر لے آتے ہیں، لیکن یہ پھرتی دینی مقدّسات کی حرمتوں کے تحفظ کے لیے نہیں دکھائی جاتی۔

جب ہم ان مذموم ابلیسی حرکات کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں، تو ہمارے لبرلز کو تکلیف ہوتی ہے اور یہ بحث کرنے لگتے ہیں: فتویٰ دینا کس کا کام ہے، اُن کی خدمت میں گزارش ہے: فتوے اور قضا میں فرق ہے،

اس تحقیق میں جائے بغیر کہ بیان کردہ صورتِ مسئلہ درست ہے یا غلط، حقیقتِ حال کے مطابق ہے یا نہیں، مفتی کا کام فقط یہ ہے کہ بالفرض اگر بیان کردہ صورتِ مسئلہ درست ہے تو اس کا حکمِ شرعی یہ ہے۔ الزام کی تحقیق کرنا، ثبوت وشواہد کی جانچ پڑتال کرنا اور الزام کو ثابت یا ردّ کرنا یہ قاضی کا کام ہے، دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ انھی حکومتوں اور میڈیا کو جب ضرورت پڑتی ہے تو پھر فتوے کے لیے علماء سے رجوع کرتے ہیں، ’’پیغامِ پاکستان‘‘ اس پر شاہد ہے۔ اگر حکومت کا اپنا قائم کردہ آئینی ادارہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان‘‘ یا ہماری عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ اپنے فرائض ٹھیک ٹھیک انجام دیں، تو علمائے کرام کو ان امور میں دخل اندازی کا شوق نہیں ہے، لیکن جب دینی مقدّسات کی حرمتوں کو پامال کیا جائے اور ہماری انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہر سطح کی عدالتوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے، تو پھر اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں پر اللہ کی حجت کو قائم کرنا علمائے حق کی ذمے داری ہے اور اگر وہ اس سے گریز کریں یا چشم پوشی کریں یا گوشۂ عافیت تلاش کریں، تو یہ اُن کی طرف سے دینی ذمے داری سے غفلت اور پہلوتہی قرار پائے گا۔ 9مئی کے سانحے پر من حیث القوم ہم اتنے حساس کیوں ہیں، اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہے کہ ریاستی اداروں کی حرمت پامال ہوئی، حالانکہ ہم سب کی حرمتیں دینی مقدسات کی حرمتوں پر قربان ہوجائیں تو بھی کم ہے۔