جسم مستور حکم ہے اللہ

637

لباس کسی بھی انسان کی تہذیب اور اْس کے وقار کا آئینہ دار ہوتا ہے اور لباس انسان کی شخصیت اور مزاج کی بھی عکاسی کرتا ہے، پھر مسلمان ہونے کے ناتے ہمارے دین میں کچھ حدود و قیود مقرر ہیں جن کو ہم فراموش نہیں کر سکتے، اسلام میں جہاں کھانے پینے، چلنے پھرنے، گفتگو کرنے تک کا سلیقہ سمجھایا ہے وہیں پہنے اْوڑھنے کے معاملات پر بھی ہماری رہنمائی فرمائی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لباس حیا کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں، کیا ہم دور جدید کے فیشن کو اپنانے اور مقابلے کی دوڑ میں شریک ہیں یا ہمارے طرزعمل اور ہمارے پہناوے سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہونی چاہیے، اس سلسلے میں والدین کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بچپن سے ہی اپنے بچوں کے لباس پر گہری نظر رکھیں تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ جب وہ بڑے ہوں تو اْن کا مزاج بھی حیا کے تقاضوں اور شریعت کے مطابق با آسانی ڈھل چکا ہو، میرے خیال میں لباس کے معاملے میں تقافت اور تہذیب کا لحاظ ضروری ہے۔ جب ہم بچپن ہی سے اپنے بچوں کو اپنی تہذیب اور ثقافت سے آشنا کروانا شروع کردیں گے تو وہ جوان ہو کر اپنی تہذیب اور ثقافت کا بہترین آئینے دار ہوں گے۔ شرم و حیاء اور پر وقار شخصیت بچوں کی پہچان ہو گی۔

عصر حاضر فتنہ و فساد اور اخلاقی پستی و تباہی، کے ساتھ ساتھ اسلامی اور مذہبی اقدار اور روایات کی پامالی اور بے راہ روی اور تباہی کا ویسے ہی شکار ہے جہاں معاشرے میں بہت سی خرابیاں اور خرافات نسل انسانی کی پستی کا سبب ہیں، تو وہیں ایک آزاد خیال طبقہ تہذیب و شائستگی اور ترقی و خوشحالی کا نام دے کر بنات حوّا کو نیم برہنہ حالت میں پیش کر کے مغربی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہیں، کبھی آزادی نسواں کے نام پر خوش نما نعرے دے کر ان کی تذلیل کرتے ہیں یہ وہ شیطانی قوت ہے، جس کے دام فریب میں آکر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فیشن کے نام پر اپنے مستور جسم اور با پردہ بدن کو اعتماد کے ساتھ کھول کر پیش کر رہے ہیں اور مطمئن بھی نظر آتے ہیں۔

مغربی طرز کے ملبوسات کو عام کرنے میں ہمارے میڈیا کا بھی بہت بڑا کردار ہے کیونکہ ایک بڑا طبقہ ٹی وی دیکھ کر ہی فیشن کو اپناتا ہے خاص کر ٹی وی پر بیٹھی آزاد خیال عورتیں یا پھر فیشن شو کے پروگرام میں ایسے ملبوسات زیب تن کیے ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا بھی شرم محسوس کرنے لگتا ہے، ان کے ملبوسات دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیا واقعی ہم کسی اسلامی ملک میں رہتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے میڈیا کے ذریعے ہم اپنے لباس اور اقدار کو فروغ دیں تاکہ ساری دنیا میں ہماری ایک الگ پہچان بن سکے، جبکہ لباس کے بارے میں قرآن میں متعدد جگہ تفصیل کے ساتھ ذکر ملتا ہے لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کے ستر کے حصّوں کو چھپالے جو لباس اس مقصد کو پورا نہ کرسکے تو پھر وہ لباس تو نہ ہوا کیونکہ وہ لباس اپنا بنیادی مقصد پورا نہیں کررہا ہے جس کے لیے وہ سلوایا گیا اور پہنا گیا، آج کے معاشرے میں آپ کو اس طرح کے ذہن رکھنے والے بھی خوب ملیں گے کہ صاحب لباس میں کیا رکھا ہے، جیسے چاہو جیو بس دل صاف ہونا چاہیے یا پردہ تو نظر کا ہوتا ہے، مگر میرے نزدیک یہ وہ لوگ ہیں جو مذہب سے بیزار ذہنیت رکھنے والے ہیں اور اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔

حدیث مبارکہ ہے آقائے دو جہاں نے لباس کے بارے میں تین چیزوں کی نشاندہی فرمائی ہے۔ 1۔ باریک لباس 2۔ چْست لباس 3۔ ستر کا کھلا رہنا، ان میں سے ایک چیز بھی لباس کا حصہ ہوگی تو اللہ نے ایسے لباس پہنے والوں پر لعنت بھیجی ہے آپ خود مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کس تیزی کے ساتھ اس قسم کے لباس صرف اشرافیہ ہی میں نہیں بلکہ مڈل کلاس طبقے میں بھی سرایت کر چکا ہے اب یہ برائی برائی بھی نہیں سمجھی جاتی۔

ان سب باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکے جو ہماری اسلامی اقدار اور تہذیب و ثقافت سے گہرا تعلق رکھتا ہو، اور بے شک ہماری تہذیب ہمارا لبادہ ہی تو ہے جو ہم کو دنیا کی بے حیائی سے دور رکھتا ہے جو ہمارے دین کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مومن عورتوں کے بتن سے پیدا ہونے والی نسلیں ہی قوم کا وقار اور اسلامی معاشرے کا ستون بنتے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ پروردگا ر ہماری نئی نسل کو دین ودنیا کی سمجھ عطا فرما اور اپنے لیے ان لباس کو پسند کرنے کی توفیق دے جو اپنے لباس سے اپنے ستر کی حفاظت کا ذریعہ بناسکیں آمین۔