ہر محکمہ دیوالیہ ہے

602

یوں سندھ کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ڈیڈیکشن بل کی لوٹ ہی کیا کم تھی بجلی کے شکاری نیا جال لے آئے اور جینا جنجال کر ڈالا۔ بجلی کا ادارہ ’’حیسکو‘‘، اُن صارفین کے لیے عذاب بنا ہوا ہے جو بجلی کی چوری کو حرام سمجھ کر محتاط انداز سے بجلی کا استعمال کرکے بروقت بل کی ادائیگی کرتے ہیں اس محکمہ نے لوٹ کا نیا گورکھ دھندہ شروع کردیا ہے جس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی ہے۔ اس نئے اور نرالے طریقہ کار کے مطابق گھریلو صارفین کو بجلی کے مختلف ٹیرف کے تحت بل بھجوائے جارہے ہیں کسی صارف کو 7 روپے کسی کو 22 روپے۔ یوں ہی کسی کو 13 روپے اور 18 روپے فی یونٹ کے بل ایک جتنے یونٹ کے موصول ہورہے ہیں۔ یہ اچھوتا اور ٹھگی کا قانون محکمہ حیسکو نے یوں ترتیب دیا ہے کہ کسی تقریب یا ہنگامی ضرورت کے تحت کسی بھی صارف نے بھولے سے ماہانہ 200 یونٹ سے زائد ایک یونٹ بھی استعمال کیا تو اس کا نرخ فی یونٹ بڑھ کر 22 روپے یونٹ ہوجائے گا۔ اور پھر اگر اُس نے 300 یونٹ ماہانہ سے زائد بجلی استعمال کی تو اس کا فی یونٹ 30 روپے کے حساب سے وصول کیا جارہا ہے۔ دلچسپ اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک مرتبہ کی غلطی کا خمیازہ صارف کو یوں برداشت کرنا پڑ رہا ہے کہ اگلے ماہ یہ صارف 25 یونٹ استعمال کرتا ہے تو اُسے 7 روپے فی یونٹ کے بجائے 6 ماہ تک 22 روپے فی یونٹ کی ادائیگی کرنی ہوگی کہ اُس نے ایک مرتبہ 200 یونٹ کو کیوں کراس کیا اور اگر اُس نے صرف ایک مرتبہ 300 یونٹ کو کراس کیا ہوگا تو بھی اس کو 25 روپے یونٹ کی 30 روپے کے حساب سے ادائیگی کا سامنا چھے ماہ تک کرنا پڑے گا۔ کوئی پوچھے کہ یہ چھے ماہ کی سزا کیا ہے؟ تو کہتے ہیں محکمہ کی مرضی ہے، انہیں خون چوسنے کی لت جو پڑ گئی ہے۔

حیدر آباد سائٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے بانی چیئرمین مظہر الحق چودھری کا کہنا ہے کہ ایسا ظلم تو کہیں نہیں ہے جیسا حیسکو میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد بجلی کمپنی میں 100 یونٹ تک بجلی کے نرخ 7.40 روپے فی یونٹ اور اُس کے بعد سے 200 یونٹ تک 10.56 روپے فی یونٹ تک میں 132 یونٹ کا بل 1267 روپے کا بنتا ہے۔ ملتان بجلی کمپنی کا 108 یونٹ کا بل قیمت مع ٹیکسز کل 1265 روپے کا بنتا ہے مگر حیسکو میں بدترین لوٹ ہے۔ یہاں سارا ٹیرف یکساں کردیا گیا ہے، 300-200-100 یونٹ کے نرخوں میں کوئی فرق نہیں، فی یونٹ کم سے کم 22 روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ 300 یونٹ کے بعد 27.74 فی یونٹ کی وصولی کا ظلم مسلط کردیا گیا۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن جو سندھ کے دارالحکومت میں بجلی کی فراہمی کا نجی ادارہ ہے اُس کے ماہ مئی 2023ء کے بل کا جائزہ حیسکو کے ذمے داران کی خدمت ہے۔ 294 یونٹ کا بجلی کا بل جو صارف کو موصول ہوا۔ اُس میں فیول چارجز 300 یونٹ کے نرخ 22.1400 فی یونٹ کے حساب سے بجلی کا تخمینہ 7328 روپے اور ٹیکسوں کی مد میں 1483 روپے لگا کر کل بل 8812 روپے آیا، جب کہ بقیہ 63 یونٹ 10,06 فی یونٹ کے حساب سے تخمینہ بنایا گیا۔ 100یونٹ سے کم 58 یونٹ کا بل 808 روپے بنایا گیا جس میں بجلی کی قیمت 648,64 اور ٹیکسز کے 162 روپے شامل کیے گئے۔ کراچی میں بجلی کے ٹیرف میں درجہ بندی ہے یہ نہیں کہ مطلوبہ گنتی سے ریڈنگ اُوپر چلی گئی تو ایک یونٹ سے لے کر آخری یونٹ تک جو سب سے زائد نرخ ہیں۔ وہ لاگو ہوں گے اور پھر اس غلطی کا آئندہ ماہ مداوا کر بھی دیا تو چھے ماہ تک آپ کو چند یونٹ کی قیمت بھی سب سے زائد نرخ جو زیادہ یونٹ استعمال کرنے پر لاگو کیے گئے تھے کم یونٹ پر بھی لاگو ہوں گے۔ یہ اندھیر نگری چوپٹ راج حیسکو میں لاگو ہے۔ ایک صوبہ میں دو قانون، عملاً ثابت کرتے ہیں کہ دونوں حصہ ایک نہیں ہیں۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کو نیپرا نے ڈیڑھ سال پرانی سہ ماہی کی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کراچی کے لیے بجلی ایک روپیہ 55 پیسے مہنگی کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ رقم مئی، جون، جولائی سال 2022ء کے بلوں کی مد میں وصول کی جائے گی۔ یہ ظلم و ستم کھلا ہے، کوئی عدالت یہ نہیں پوچھتی ہے کہ جب صارف نے اکتوبر 2021ء میں بجلی کا بل مکمل ادا کردیا تو ایڈجسٹمنٹ کیا ہے۔

نیپرا نے وہی چالبازی اختیار کی کہ رائفل کا لائسنس درکار ہو تو توپ کے لائسنس کی درخواست دے ڈالو۔ نیپرا نے کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی قیمت میں اضافہ کی درخواست جو دائر کی اُس میں ایف سی اے کی مد میں 4 روپے 49 پیسہ فی یونٹ اضافہ کی بات رکھی۔ نیپرا کی ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے مطابق مارچ کے ایف سی اے کی مد میں اضافہ فی یونٹ 3 روپے 70 پیسہ فی یونٹ بنتا ہے، اور وہ یوں اس اضافے سے کراچی کے شہریوں سے 5 ارب 47 کروڑ 10 لاکھ روپے خرچ وصول کرے گی۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے ساتھ ساتھ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں جو 34 پیسہ فی یونٹ بجلی مہنگی کی اُس سے 2 ارب 90 کروڑ کا اضافی بوجھ صارف پر پڑے گا۔ اور مئی کے بلوں میں یہ ادائیگی کا سامان کرلیا گیا۔ حیسکو نے ٹیرف A-20\04 کے بلوں میں ماہ مئی میں تصحیح بل کے نام پر بل کی مالیت کے برابر وصول کیا تا کہ وہ لوٹ کی دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔ ماضی میں بجلی خریداری کے غلط معاہدوں نے پوری معیشت کو یرغمال بنالیا۔ معاہدوں میں کیپسٹی چارجز کی شرط رکھی گئی، یعنی بجلی کی حکومت کو ضرورت ہو یا نہیں ان پاور پلانٹس کو ادائیگی کی جاتی رہے گی اور اسی طرح بجلی کا ٹیرف روپے کے بجائے ڈالروں میں مقرر کرکے ایک جال بُنا گیا جس میں صنعتی ادارے، گھریلو صارفین ایسے پھنس کر رہ گئے اور حکومت وقت گزارہ اور کمیشن ہمارا کی بنیاد پر کام کرتی رہیں۔

بجلی کے شعبہ کی نجکاری اور خریداری کے معاملات چلتے رہے اور تین حکومتیں اس دورانیہ میں چل بسیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی الیکٹرک کی نجکاری ہوئی اُس میں ’ہرکاری‘ بھی نجی ادارے نے خوب کی کہ پورے شہر کراچی میں بجلی کی سپلائی کے سروس تار جو کاپر کے تھے بدل کر ایلومونیم کے لگادیے اور ایک ہی جست میں اربوں روپے اس تبدیلی سے کھرے کرلیے۔ اب لوڈشیڈنگ کے عذاب سے صنعت اور قوم بے جان ہوگئی تو نیپرا نے بجلی کی فروخت کے حوالے سے بیش تر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں جن کو ڈیسکوز کہا جاتا ہے کو نئے لائسنس جاری کرتے ہوئے مخصوص علاقہ پر ان کا حق اجارہ داری ختم کردیا جس سے بجلی کی فروخت کے عمل سے بتدریج حکومتی عملداری ختم ہونے کا راستہ کھلے گا۔ نیپرا نے جن ترسیل کمپنیوں کی اجارہ داری کا حق ختم کیا ہے ان میں فیصل آباد، گوجرانوالہ، حیدر آباد، اسلام آباد، لاہور، ملتان، پشاور اور کوئٹہ کی بجلی کمپنیاں ہیں۔ سال 2013ء میں ٹرائل ایریا ڈسٹری بیوشن کمپنی اور سال 2011ء میں سکھر ڈسٹری بیوشن کمپنی کو نیپرا نے خصوصی اجارہ داری کا لائسنس 20 سال کے لیے جاری کیا تھا ان دونوں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لائسنس کی مدت ختم ہونے پر انہیں غیر مسابقتی لائسنس جاری کردیے جائیں گے۔

کراچی الیکٹرک کے لائسنس کی معیاد جون 2023ء میں ختم ہورہی ہے۔ اُمید یہی ہے کہ باقی بجلی کمپنیوں کی طرح اس کو بھی وہ ہی لائسنس جاری کیا جائے گا جس سے اس کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ باقی بجلی کمپنیوں کی طرح کے الیکٹرک کے زیر تصرف علاقہ میں بھی دیگر کمپنیوں کے لیے بجلی کی ترسیل اور فروخت کے نظام کا راستہ کھل جائے گا۔ اب تک بجلی کی خریداری کے لیے حکومت واحد خریدار ہوا کرتی تھی مگر نئے نظام میں بجلی کے لیے پیداواری یونٹس لگانے، ٹرانسمیشن نظام بچھانے اور بجلی کی فروخت حکومتی ضمانت کے بغیر ایک آزاد مارکیٹ میں ہوا کرے گی اور بجلی کی نیلامی ہوا کرے گی جہاں سے سستی بجلی ملے گی، خریدار اُس کے ہوں گے اور یوں سرمایہ کاروں کے لیے نئی مارکیٹ دستیاب ہوگی جو بہتر خدمت اور معقول رقم پر فروخت کی بنیاد پر بجلی کمپنیاں بجلی فروخت کریں گی۔ وہی مارکیٹ لوٹ لیں گی اور صارفین بھی سکھ کا سانس لیں گے۔ مغربی ممالک میں یہی طریقہ کار ہے جو خوب کامیاب بھی ہے۔ اللہ کرے کچھ ایسا ہی ہوجائے۔

دیر آید درست آید حکومت اب مزید تاخیر نہ کرے اور اس کھیل سے جس کا گردشی قرضہ سال بھر کا 300 ارب بتایا جاتا ہے سے جان جتنا جلد ہی چھوٹ جائے ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔ بجلی کے محکمہ کی کالی بھیڑوں، سیاسی وڈیروں، بجلی چوروں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ اگر یہ کچھ ہوگیا تو ان کی حرام خوری کہاں برقرار رہے گی۔ ان بدمعاشوں کی یونین، پھر میدان میں اُتری ہے، تالہ بندی، ہڑتالوں سے اس کی راہ کھوٹی کرنا چاہتی ہے، مگر حکومت کو قوم و ملک کا مفاد عزیز رکھنا چاہیے اور یہ جو مفت بجلی کی سہولت افسران کو، بجلی کے ملازمین کو، کچھ اداروں کو دی ہوئی ہے یہ صریح ناانصافی ہے اس کا بھی خاتمہ اب وقت کی ضرورت ہے۔کراچی کے شہریجہاں کے الیکٹرک کی اجارہ داری کا لائسنس ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں وہاں سنگاپور کی طرح سات الیکٹرک کمپنیوں کے لائسنس کے اجرا کا مطالبہ کررہے ہیں تو سندھ حکومت سندھ میں قائم بجلی کمپنیوں کو گود لینے کی درخواست کے ساتھ وفاق کے حضور حاضر ہے تا کہ ان کے ہمدردان بجلی کی چوریوں کے فیض سے محروم نہ ہو کر رہ جائیں۔ پی پی پی کے قائد اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری نے ایک بیان میں واپڈا پر خوب تبصرہ کرتے ہوئے دریا کو کوزہ میں بند کردیا۔ آپ نے کہا کہ ملک کا سب سے غیر مقبول ادارہ واپڈا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز حلقوں میں نہیں جاسکتے۔ واپڈا میں سب سے خراب کارکردگی کا ادارہ حیسکو ہے اس نے ڈیڈکشن بل کی بھرمار کے ساتھ ایک ماہ میں دو بجلی کا اجرا کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا۔ وزیر توانائی خرم دستگیر نے حیدر آباد میں بتایا کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ بجلی کی کمی نہیں ہے بجلی کی کمپنیاں لوڈشیڈنگ کرکے اپنے لاسز کم کرتی ہیں حیسکو کو مالی نقصانات بہت زیادہ ہے۔