وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار نے آئی ایم ایف کی خوشنودی کے بعد پاکستانی عوام کو بجٹ میں جو تحفہ دیا اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 30 سے 35 فی صد تک اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ سرکاری ملازمین میں سرکار ہی کے مامے چاچے ہوتے ہیں (معیشت تباہ حال ہے) ساتھ ہی سرکاری ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 17.50 فی صد اضافے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور پہلی بار بجٹ میں غیر سرکاری ریٹائرڈ ملازمین یعنی ای او بی آئی پنشنرز کی پنشن بھی ساڑھے 8 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہم غیر سرکاری پنشنرز جناب اسحق ڈار کے بہت مشکور ہیں کہ انہیں 5 لاکھ ضعیف العمر افراد کا خیال آیا مگر وہ شاید بھول گئے کہ یہ 1500 روپے کا اضافہ ساڑھے 3 سال کے بعد ہوا ہے جبکہ سرکاری پنشنرز ہر سال بجٹ میں اضافے سے مستفید ہوتے ہیں۔ دور نہ جائیں گزشتہ سال جب شہباز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا تو سرکاری پنشنرز کی پنشن میں 10 فی صد اضافے کا اعلان کیا تھا، پھر بجٹ میں مزید 5 فی صد اضافے سے 15 فی صد ہوگیا اور اب 1750 اضافے سے 32.50 اضافہ صرف ڈیڑھ سال میں ہوا، جبکہ ای او بی آئی پنشنرز کا اضافہ ساڑھے تین سال بعد ہوا اور وہ بھی 1500 روپے۔ اب اگر اس 1500 روپوں کو ساڑھے 3 سال پر تقسیم کریں تو اضافہ 428.57 روپے سالانہ بنتا ہے اور ذرا باریکی میں جائیں تو یہ اضافہ ایک روپے سترہ پیسے (1.17) یومیہ ہوتا ہے۔ اب اندازہ لگائیں کہ وزیرخزانہ کو ایسی کیا مجبوری پیش آئی کہ بجٹ میں ای او بی آئی کے پنشنرز کی پنشن میں ایک روپے سترہ پیسے کے اضافے کی یا کوئی تدبیر تھی۔ (آئی ایم ایف سے منظوری کی غالباً یہ پہلا بجٹ ہے) جو آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق تیار کرکے سرکاری نمائندوں (عوامی نہیں) سے منظور کرایا گیا۔ اگرچہ یہ وزیرخزانہ کا Matter نہیں۔ ای او بی آئی کی پنشن قومی خزانے سے ادا نہیں کی جاتی بلکہ اس کی ادائیگی ای او بی آئی فنڈ سے کی جاتی ہے۔
یہی نہیں ای او بی آئی مرکزی حکومت کے تحت کا کام کرتا ہے مگر اس میں کام کرنے والے افسران و ملازمین غریب مزدوروں کے خون پسینے کی جمع پونجی (ای او بی آئی فنڈ) سے پھل پھول رہے ہیں جبکہ دیگر وزارتوں کے افراد سرکاری خزانے سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
EOBI ایک خود مختار ادارہ ہے جو ای او بی آئی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 21 کے تحت ہر تین سال بعد اپنے جملہ اثاثوں اور واجبات کی ایکچوایل ویلوایشن کسی مستند کمپنی سے کرانے کا پابند ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میں ای او بی آئی کا بورڈ آف ٹرسٹیز پنشن میں اضافے کا تعین کرکے وزارت کو آگاہ کرتا ہے (اگرچہ اضافہ کا تعین ہر تین سال بعد ہوتا ہے مگر سیاسی مصلحتوں کے تحت کئی بار مسلسل دو دو اور تین تین سال بھی اضافہ ہوتا رہا ہے) ای او بی آئی کی پنشن میں آخری بار اضافہ جنوری 2020ء میں 2 ہزار روپے صرف 16 ماہ بعد ہوا تھا جو 4 روپے 16 پیسے (4.16) یومیہ بنتا ہے تو اس وقت ای او بی آئی کے ترجمان (جو ای او بی آئی کے ماہر، محنتی اور مخلص آفیسر، بہترین قلم کار اور
ہمارے اچھے دوست بھی ہیں) نے اس کو عجلت کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چیئرمین ای او بی آئی نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے حکومت وقت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کہا تھا اور یہی ترجمان جو اب سابق ہوچکے ہیں اس ایک روپے سترہ پیسے کو درست قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ یہ عجلت کا فیصلہ ہے کہ 9 جون کو بجٹ پیش ہونا ہے اور 7 جون کو بورڈ آف ٹرسٹیز سے تجاویز طلب کی جارہی ہے۔ پھر موصوف اس کو درست قرار دے رہے ہیں۔ یہاں ہم یاد دہانی کرادیں کہ اگست 2022ء کو بورڈ آف ٹرسٹیز کے 2022/23 کی بجٹ دستاویزات اور منٹس آف میٹنگ میں درج ہے کہ ای او بی آئی کا سرمایہ 400 ارب ہے جبکہ پراپرٹیز کی اسٹیٹ ویلیو 50 ارب بنتی ہے۔ ورکرز کنٹری بیوشن سے 33 ارب اور سرمایہ کاری سے 47 ارب روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ذرائع سے 2 ارب روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔ اس طرح ٹوٹل رقم 82 ارب روپے بنتی ہے۔
ہم یہاں پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر راشد رضا ربانی صاحب کے دل سے مشکور ہیں کہ جنہوں نے ہم بزرگ افراد کا درد محسوس کیا اور ایوان بالا میں برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ای او بی آئی کی پنشن میں اضافہ ناکافی ہے اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ای او بی آئی کی پنشن میں کم از کم 10 ہزار روپے کا اضافہ کیا جائے۔ آخر میں حکومت وقت سے بھی درخواست ہے کہ جب اس نے سرکاری پنشنرز کے ساتھ ای او بی آئی کی پنشن میں اضافہ کو بجٹ سے منسلک کردیا ہے تو پھر ای او بی آئی کے قانون میں ترمیم کرکے اضافہ 3 سال کے بجائے سالانہ بنیاد پر یعنی بجٹ کے ساتھ کی قرار داد منظور کرے کہ اس وقت پارلیمنٹ میں کسی قسم کی ترمیم میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ آپ ای او بی آئی کے نگراں (امین) ہیں، دیانتداری سے امانت کو امانت داروں تک پہنچانا آپ پر فرض بھی ہے۔