بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جو آصف زرداری کے زرخیز سیاسی دماغ کی اخترع ہے اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی ہے۔ خالصتاً خواتین کے اس پروگرام نے باب الاسلام صوبہ سندھ میں اخلاقی قدروں کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ یہ صوبہ جو غیرت و حمیت کے حوالے سے ممتاز اور معروف ہوا کرتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ ہوا کو بھی چھان پھٹک کر زناں خانے میں داخلہ ملتا تھا۔ گھر آئے دوست احباب کو گھروں کے بجائے دور پرے گائوں کی اوطاق پر ٹھیرایا جاتا تھا جو گھروں سے کافی فاصلے پر ہوتی اور عام کہاوت بھی ہے کہ مہمان اوطاق کا ہے رشتہ دار گھر کا ہے۔ اور اس صوبے میں شک و شبہ پر کاروکاری قرار دے کر قتل کردینا مردانگی تصور کیا جاتا رہا۔ دو عشرے سال قبل تک اگر کوئی عورت نہر کے کنارے کپڑے دھو رہی ہوتی تو سیکڑوں فٹ کے فاصلے پر واقع راستہ پر نوجوان کا پہرا ہوا کرتا تھا جو رہ گزر کو متوجہ کرتا اطراف میں ہماری ننگ ہے سر جھکا کر گزرنا۔ اور اگر کوئی دوست احباب گائوں آتا اور کوئی گائوں کا گھرانا آ یا جارہا ہوتا تو پکار کر کہا جاتا ’’مونھ پا سے کر ننگ پیا اچن‘‘ یعنی منہ کو دوسری طرف کر ہماری خواتین آرہی ہیں اور تو اور ووٹ کے مرحلہ میں سادات گھرانے کی خواتین نہ صرف پردے کی اوٹ میں آتیں بلکہ پولنگ اسٹیشن تمام مردوں سے حتیٰ کہ سرکاری عملے تک سے خالی کرالیا جاتا کہ سادات گھرانے کی خواتین کی آمد ہے۔ پردہ، شرم، حیا، غیرت حمیت صوبہ سندھ کے عوام کا کلچر تھا اور ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔
عالمی اغیار جو معاشرے کو بے حیا کرکے اس قول کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے کہ ’’تو بے حیا ہوگیا تو جو مرضی میں آئے کر‘‘ بے حیا بے لگام ہوجاتا ہے اس تقاضے کی بار آوری اور ووٹ کی سیاسی ضرورت نے جانا کہ عورت جس کو بھول جانے کا عارضہ ہے اس کو اپنی پارٹی کی یاد کرانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ کا سہ ماہی امدادی پروگرام کا آغاز کردیا گیا۔ اس پروگرام میں صرف عورتوں کو شامل کرکے نہ صرف مرد کے قوّام (سربراہ) ہونے پر ضرب کاری لگائی گئی بلکہ عورتوں کو خود سر بھی بنادیا گیا۔ یوں چند ہزار کی سہ ماہی قسط صرف عورتوں کے لیے ہی مختص نہ کی گئی بلکہ بائیو میٹرک سے عورتوں کی وصولی لازمی قرار دی گئی۔ اور اے ٹی ایم پر اُن کی حاضری ضروری ہونے سے ملک بھر میں کروڑوں اور سندھ بھر میں لاکھوں عورتیں جو پردہ نشیں اور گھر مکین ہوا کرتی تھیں سرِ راہ اے ٹی ایم اور ڈیوائس ہولڈرز کے پاس لاکھڑا کردی گئیں۔ وہاں قسط کے ایام میں جو دھکم پیل اور بے حرمتی کا سماں ہوتا ہے توبہ بھلی ہے۔ گرمی کی شدت سے بے ہوش ہونے سے لے کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے تک کے واقعات ہوچکے ہیں اور جان دو کوڑی کی اور عزت حمیت غیرت ایک کوڑی کے برابر ہوچکی ہے۔ بدقماش سوشل ورکر بے ہودہ صحافی، لٹیرے دلال اور سرکاری عملہ نہ صرف لوٹ کھسوٹ، بھتا خوری، کٹوتی کرتا ہے بلکہ وہ فحش حرکات میں بھی ملوث دیکھا جاتا ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا ان خواتین کا غیرت مند بھائی باپ وہاں نظر نہیں آتا۔ نوجوان لڑکیوں سے اخلاق باختہ حرکات معمول بنتے جارہے ہیں اور یوں ہی ادھیڑ عمر اور بوڑھی خواتین کی وہ درگت بنتی ہے کہ دل کڑھ کر رہ جاتا ہے۔ ہر باضمیر کا، کہاں وہ دور کہ نگاہ نیچے رکھو کی صدا اور کہاں اب یہ کہ ہولناک نگاہوں سے بڑھ کر دست درازیاں، استغفراللہ۔ یہ امداد ہے یا بے حرمتی اور تذلیل کا سامان۔
غریب گھرانے کی امداد کے لیے مرد کے بجائے عورتوں کی تذلیل کرانے کا مقصد خواتین کو مادرپدر آزاد بنانا ہی تو ہے سو اس نے کردیا۔ رحم آتا ہے ان عورتوں پر جو گھر سے دربدر کردی گئیں۔ سندھ کی کہاوت ہے کہ مرد گھر سے نکلے تو عقل کماتا ہے۔ عورت گھر سے نکلے تو عقل گنواتی ہے۔ اب چند ہزار روپے کی خاطر گھر خالی کرنے والی عورتیں اسی کہاوت کے مصداق ہی ہوتی جارہی ہیں اور مزے کی بات ہے کہ یہ عورتیں چند ٹکوں کے عوض اپنے آپ کو عقل کل بھی سمجھنے کے عارضہ کا شکار ہوچلی ہیں۔ اور ان کی نگاہ میں شوہر دو کوڑی کا ہو گیا ہے، کھیتوں میں مرد کا ہاتھ بٹانے والی عورتیں اب وہ خود کفیل ہو کر کام کو ہاتھ لگانے کو بھی تیار نہیں۔ اوّل تو یہ پروگرام امدادی جو سراسر سیاسی ہے وہ مستحقین گھرانے کے سربراہ مرد کے لیے ہونا چاہیے تھا۔ حکومت چار کھرب روپے سالانہ عورتوں میں بانٹتی ہے جو لاحاصل ہوتے ہیں۔ مفت کی رقم، مفت خوری سے بے کاری تک لے جاتی ہے اور ناکارہ بنا کر چھوڑتی ہے۔ حکومت پاکستان بنگلادیش کی طرح سلائی، کڑھائی اور گھریلو صنعت پر یہ رقم لگا کر عورتوں کی تربیت اور روزگار کا سامان کرتی تو اس کے نتائج بہتر بنگلادیش کی طرح نکلتے۔ اب جب بھی قسط آتی ہے کئی مسائل لے کر آتی ہے۔
حزب اختلاف کا کہنا یہ ہے کہ جب یہ امداد سرکار کے خزانے سے دی جاتی ہے تو اس کو بے نظیر کا نام دینا ان کی پارٹی کو فائدہ پہنچانا ہے۔ انہوں نے اس کا نام بدلنے کی حد تک مطالبہ کیا مگر وہ اس ہڈی کو نگلنے یا اُگلنے کی بات نہ کرسکے۔ حکومت اس سماجی پروگرام کے نام پر شروع پروگرام کا اسلامی خطوط کی روشنی میں جائزہ لے اور معاشرتی خرابیوں کو اپنی پڑتال میں رکھے اس منصوبے نے سندھ کی سماجیات اور سیاست کی کایا پلٹ دی ہے اور سندھ کی اسلامی شناخت اور حمیت شدید خطرے سے دوچار کردی ہے۔ بھکاری کے بجائے دست کاری کو فروغ دیا جائے۔ اہل علم و فکر صاحب شریعت ذرا اس پروگرام کے پہلوئوں پر غور کریں کہ یہ منصوبہ معاشرتی اور شرعی لحاظ سے صوبہ سندھ کی سماجیت کو سبوتاژ کرنے، اس کی شناخت کو مٹانے کا نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ اس منصوبے میں اربوں روپے کی کرپشن اعلیٰ سطح سے لے کر افسران تک، وڈیروں سے لے کر پارٹی عہدیداروں نے کی ہے۔ ایک ایک گھر میں سب خواتین کے کارڈ بنوا کر ڈیوائس والوں کو گھر بلا کر سہ ماہی رقم بٹوری جارہی ہے۔ ایک وڈیرے کے مطابق سرکار سے گاڑی کے پٹرول کا خرچ ہی نکل رہا ہے۔ اس کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کہیں سب کچھ چوپٹ نہ ہو کر رہ جائے۔