سفر شوق کی طرف مسافر گامزن ہوئے۔ پیچھے رہ جانے والے جانے والوں کی خوش قسمتی پر رشک کرتے رہ گئے۔ دلِ بے تاب مچلتا رہا کہ کاش ہم بھی اس قافلے کے راہی ہوتے، تہی داماں ہیں تو کیا ہے کہ آرزو اور تمنا تو فراواں ہیں۔ لیکن بڑی سعادت ہے کتنا عظیم الشان قرب ہے کہ عاشقوں کو عشق کی منزل مراد ملنے کو ہے۔ حسرتِ دل بے چین رکھتی ہے۔ مایوسی دل کو افسردہ کرتی ہے لیکن تمنا کا دامن تھامے رہنا ہے کہ آرزو کا اجر واجب ہے۔ پھر کیا پتا کب نحل آرزو ثمر بار ہوجائے۔ جانے والے لاکھوں تو رہ جانے والے کروڑوں ہیں۔ مقصود اعلیٰ کا فرمان ہے کہ دل بے تاب کو حالت سفر میں رکھو یہ ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ بشارت جب ملے بلاوا جب آئے سامان تیار ہو تو سفر آسان ہوجاتا ہے۔ رخ اور سمت درست ہو تو معاملہ ’’ہر لحظ تیار کامران ہیں ہم‘‘ والا ہوجاتا ہے۔ دل و نگاہ منزل کے رخ پر رہیں، محبوب کے در کے چکر لگانے کی آرزو قائم رہے، عزم جواں رہے، شوق بے تاب رہے، بس یہی زادِ راہ ہے سو جہاں جس مقام پر ہو دل و نگاہ کا رخ و جہد کریم کی طرف کرلیا جائے۔ اس کی ہلکی سے ہلکی ناراضی کی فکر رہے، رضا مندی اور خوشنودی کی تلاش رہے، یوں مسافر حالت ِ سفر میں رہے یہی مقصود ہے۔ دل و زندگی کا رخ ربّ کعبہ کی طرف رہے بس پھر جس طرف کا ارادہ ہوگا اسی کو سامنے پائو گے (البقرہ: 115)
انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اقبال کہتے ہیں؎
زندگی انساں کی اِک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے، دم کے سوا کچھ بھی نہیں
گلِ تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو، مگر
شمع بولی گریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
رازِ ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو
کھل گیا جس دم، تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
زائرانِ کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
اقبال زندگی کی حقیقت کو ’’دم‘‘ قرار دیتے ہیں اور دم کیا ہے؟ سانس فقط ہوا کی اک لہر جو اِدھر اُدھر بھاگتی دوڑتی پھرتی ہے لہٰذا زندگی ناپائدار ہے۔ عارضی ہے بلبلے جیسی ہے۔ پھول کہتا ہے زندگی مسکراہٹ اور ہنسی ہے لیکن شمع زندگی کو غم و رنج کا نام دیتی ہے۔ اقبال تیسرے مصرعے میں کہتے ہیں کہ کوئی شخص زندگی کے بھید سے واقف نہ ہو تو اس کے لیے زندگی راز بنی رہتی ہے لیکن آگاہی کی صورت میں اس کے دل پر یہ راز افشا ہوجاتا ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں تو فانی ہیں صرف روحِ انسانی باقی رہ جاتی ہے اور قائم رہتی ہے، بس موت بعد عالم بالا میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اور قیامت میں جنت یا دوزخ…!!!
کعبے کی زیارت کرنے والے حاجیوں سے اقبال کا سوال آج بھی یہی ہے کہ بھلا کعبے سے آب زم زم کے سوا کوئی اور چیز تحفے کے طور پر ساتھ لانے کے قابل نہیں؟ یہ اُن حاجیوں پر طنز ہے کہ جو زم زم تو لے آتے ہیں لیکن خوف خدا… اور قلب ِ سلیم ساتھ نہیں لاتے کہ اب باقی زندگی اس کے سہارے گزاریں۔ یقینا ہر مسلمان اپنے عہد سے بندھا ہے جو وہ پانچ وقت اللہ کے دربار میں کھڑے ہو کر کرتا ہے کہ ’’ایاک نعبدوایاک نستعین‘‘ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مانگتے ہیں‘‘۔
حجاج تو اللہ کے گھر جا کر اُس کے گھر کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر اس عہد کو تازہ کرتے ہیں۔ لہٰذا ایک حاجی کی زندگی سب سے زیادہ اور پہلے سے زیادہ ربّ کی فرمانبرداری اور بندگی والی ہونا چاہیے۔ پیچھے رہ جانے والے تمام مسلمانوں کو بھی سنت ابراہیمی میں جانوروں کی قربانی کے بعد اپنے ہر اس عمل کو بھی قربانی کردینا چاہیے جو رب کو ناراض کردینے والا ہو۔
حجتہ الوداع 10 ہجری 9 ذی الحج کا سورج نکلا تو آپ عرفات کے میدان کی طرف روانہ ہوئے۔ میدان عرفات میں مقام نمرہ میں ایک خیمے میں قیام فرمایا۔ زوال کے بعد اپنی اوٹنی قصوا پر سوار ہو کر لوگوں سے خطاب حجۃُ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسولؐ نے عرفات کے میدان میں بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ ایک اہم بات یہ فرمائی کہ ’’خون اور مال کا ہر وہ دعویٰ جس کے لوگ مدعی ہیں یعنی سود اور بدلہ وہ میرے قدموں تلے ہیں‘‘۔
قرآن میں اللہ سود خوروں سے اعلان جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ افسوس کہ اللہ نے امت مسلمہ کو سود کو مٹانے کا حکم دیا تھا لیکن اب حال یہ ہے کہ ہمارے معاشی ماہرین سود کو معاشی نظام کا لازمی عنصر سمجھتے ہیں۔ سود خوری کے ذریعے ملک میں استحکام لانے کا اعلان کرتے ہیں۔ بھلا اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے اعلان جنگ کرکے ملک کو معاشی استحکام دیا جاسکتا ہے؟ آج تک اس سودی نظام کے تحت ملک کو کتنا استحکام دیا جاسکا ہے؟ آج کا بجٹ سودی بجٹ ہے، ہماری حکومت اعتراف کرتی ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے ہر چیز پر ٹیکس لگایا لیکن پیسے پورے نہیں ہورہے۔ لہٰذا ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے ۔ آخر حکومت اپنے وزیروں، مشیروں اور سرکاری افسروں کے اخراجات کو کم کیوں نہیں کرتی۔ ابھی سینیٹ کے چیئرمین کے اخراجات کا بل پاس کیا گیا ہے، ایک قرض میں ڈوبے ملک کے حکمران ایسے بل پاس کریں تو ملک کی معیشت اور خزانے خالی ہونے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔